وزارت تجارت نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بعض اشیا بشمول پٹرولیم اور قدرتی گیس کی بارٹر تجارت کی اجازت دینے کے لیے ایک خصوصی آرڈر پاس کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ، حکومت ادائیگیوں کے توازن کے بحران کو سنبھالنے اور مہنگائی کو کنٹرول میں لانے کی شدت سے کوشش کر رہی ہے جو گزشتہ ماہ تقریباً 38 فیصد کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی۔
یکم جون کے حکومتی حکم نامے جسے بزنس ٹو بزنس (بی 2 بی) بارٹر ٹریڈ میکانزم 2023 کہا جاتا ہے، اس میں ان اشیا کی فہرست دی گئی ہے جن کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔
تجارتی طریقہ کار میں حصہ لینے کے لیے ریاستی اور نجی ملکیتی اداروں کو منظوری درکار ہوگی۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد امین نے کہا کہ پاکستان بالخصوص روس اور ایران سے تیل اور توانائی کی درآمدات سے ڈالر کی طلب میں اضافہ کیے بغیر بارٹر ٹریڈ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ممالک کو درپیش ڈالر کی قلت کے پیش نظر بارٹر ٹریڈ کا موقع اہم ہے۔
ساجد امین نے مزید کہا کہ ’اگرچہ یہ کرنسی کی اسمگلنگ کو حل نہیں کر سکتا، خاص طور پر افغانستان کی سرحد پر لیکن یہ ایران اور افغانستان سے اشیا مثلاً ڈیزل کی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے جس سے معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘
اپریل میں پاکستان کی جانب سے رعایتی روسی تیل کی پہلی خریداری کے بعد، وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے رائٹرز کو بتایا کہ ملک اس معاہدے کے تحت ریفائنڈ مصنوعات نہین صرف خام تیل خریدے گا۔