شہباز شریف دوسری مرتبہ ملک پاکستان کے 24 ویں وزیراعظم منتخب
ووٹنگ کے نتیجے میں مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار شہباز شریف قائد ایوان منتخب ہوگئے۔ انہیں 201 ووٹ ملے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب نے 92 ووٹ حاصل کیے۔
صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نئے تشکیل شدہ 8 جماعتی اتحاد کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے مشترکہ امیدوار ہیں اور آج دوسری بار اس منصب کا انتخاب جیتنے کے لیے تیار دکھائی دے رہے ہیں، ان کا مقابلہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نامزد کردہ امیدوار عمر ایوب خان سے ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) اتوار کو ہوگا۔
دونوں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائے، جنہیں اسپیکر ایاز صادق نے جانچ پڑتال کے بعد دونوں اطراف کے امیدواروں کی موجودگی میں درست قرار دیا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق شہباز شریف کی جانب سے 8 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جبکہ 4 کاغذات نامزدگی عمر ایوب خان نے جمع کرائے جن پر مختلف تجویز کنندگان اور حمایت کنندگان کے دستخط تھے۔
جمعہ کو لگ بھگ یک طرفہ مقابلے میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے حاصل کرنے کے بعد 8 جماعتی اتحاد وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے پراعتماد نظر آرہا ہے۔
جبکہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی (جو آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے اور بعد میں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے) کی جانب سے آج 8 فروری کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ایوان میں شور شرابہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے علاوہ شہباز شریف کو پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، پاکستان مسلم لیگ (ضیا) ، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) اور نیشنل پارٹی (این پی) کی حمایت حاصل ہے جن کے اراکین کی مجموعی تعداد 205 بنتی ہے، ایم کیو ایم (پاکستان) اور پیپلزپارٹی کے 2 منتخب اراکین قومی اسمبلی نے ابھی حلف نہیں اٹھایا ہے۔
قائد ایوان بننے کے لیے شہباز شریف کو 336 رکنی ایوان میں 169 ووٹ درکار ہیں، دوسری جانب پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ اپوزیشن کے پاس 102 اراکین قومی اسمبلی ہیں جن میں سے ایک رکن نے حلف نہیں اٹھایا ہے، دریں اثنا جمعیت علمائےا سلام (ف) اور بی این پی (مینگل) کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے بائیکاٹ کا امکان ہے۔
فی الوقت 304 اراکین قومی اسمبلی حلف اٹھا چکے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نے اب تک خواتین اور اقلیتوں کی 23 مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن روک رکھا ہے۔
جمعہ کو مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق نے پی ٹی آئی سے تعلق کرنے والے اپنے حریف عامر ڈوگر کے مقابلے میں 199 ووٹ حاصل کرکے اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب جیت لیا، عامر ڈوگر نے ایوان میں 91 ووٹ حاصل کیے۔
اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے احتجاج کے درمیان خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرائے گئے جنہوں نے اسے ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں مختص کیے بغیر ایوان نامکمل ہے۔
جمعیت علمائے اسلام-ف کے 8 ارکان اور بی این پی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل (جنہوں نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا) نے آج اتوار کو وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں حصہ لینے کے بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کیا۔
تاہم مولانا فضل الرحمٰن کراچی پہنچ چکے ہیں جوکہ بظاہر اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔
قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے لیے الیکشن آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت کرائے جائیں گے، آرٹیکل 91 (3) کہتا ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کسی بھی دوسری مصروفیت کو چھوڑ کر بغیر کسی بحث و مباحثے کے اپنے کسی مسلمان رکن کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے منتخب کرنے کی کارروائی آگے بڑھائے گی۔
آئین کے آرٹیکل 91(4) کے مطابق وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت کے ووٹوں سے کیا جائے گا، بشرطیکہ اگر کوئی رکن پہلی رائے شماری میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکے تو ان 2 ارکان کے درمیان دوسری رائے شماری کرائی جائے گی جن کو پہلی رائے شماری میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوں گے اور جو رکن موجود اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرلے گا اسے وزیر اعظم منتخب کرنے کا اعلان کردیا جائے گا۔