بارہ ووٹوں کی کہانی

Aliآس پاس

ستمبر 2021 کی ایک رات، پیٹرک اوہارا کو لگا کہ وہ جیت چکے ہیں۔

نتائج کے مطابق، وہ 286 ووٹوں سے آگے تھے۔ قریبی مقابلہ تھا، لیکن وہ مطمئن تھے۔
مگر دو ہفتے بعد، دوبارہ گنتی نے سب کچھ بدل دیا — وہ صرف 12 ووٹوں سے ہار گئے۔

"یہ میری زندگی کا سب سے تلخ لمحہ تھا،” وہ کہتے ہیں۔

اب، 2025 کے الیکشن میں، اوہارا ایک بار پھر میدان میں ہیں۔ اس بار وہ Châteauguay–Les Jardins-de-Napierville کے حلقے سے امیدوار ہیں — جو مونٹریال کے جنوب سے لے کر امریکہ کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ کھیت، باغات، چھوٹے قصبے، اور سیاسی جذبات اس علاقے کی پہچان ہیں۔

اوہارا اب ہر دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ ہر ووٹر سے بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ 12 ووٹ کیا ہوتے ہیں۔

وہ اکثر سوچتے ہیں — کتنے لوگ لمبی قطار دیکھ کر چلے گئے ہوں گے؟ کتنے نے کہا ہوگا، "پیٹ جیت گیا ہے”، اور ووٹ نہیں دیا؟
اب ہر ووٹ، ہر لمحہ قیمتی ہے۔

دوسری طرف، اس بار میدان میں ایک نیا نام ہے — نتھالی پروووست، جو 1989 کی ایكول پولیٹكنیک فائرنگ کی زندہ بچ جانے والی اور گن کنٹرول کی علمبردار ہیں۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سیاست میں آئیں گی، لیکن جب برینڈا شانہان نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی، تو انہیں لگا کہ اب وقت ہے۔

"میں کنزرویٹو پارٹی کے زیرِ قیادت کینیڈا کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔”

پروووست کے لیے سفر آسان نہیں رہا۔ شروع میں ہی مارک کارنی نے ان کا نام غلط لیا اور ان کے ساتھ ہونے والے واقعے کو دوسرے حملے سے ملا دیا۔

"تھوڑا دکھ ہوا،” وہ کہتی ہیں۔ "لیکن اصل بات یہ ہے کہ میرے بارے میں بات ہوئی، میرے مقصد کے بارے میں بات ہوئی۔”

میدان گرم ہے۔ لبرلز کو تھوڑی سبقت حاصل ہے، لیکن کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ حلقہ ہے جہاں کبھی صرف 12 ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوئے تھے۔

"اب کی بار، میں اپنے علاقے کی آواز بننے آیا ہوں۔” اوہارا کہتے ہیں۔

یہ صرف ایک انتخاب نہیں — یہ ایک یاد ہے، ایک سبق، اور ایک موقع کہ تاریخ خود کو نہ دہرائے۔