معروف عالم دین مفتی تقی عثمان کی قیادت میں پاکستانی علمائے کرام کا آٹھ رکنی وفد افغانستان کی عبوری حکومت کے سینئر رہنماؤں سے بات چیت کے لیے پیر کو کابل پہنچا تاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کو پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کے لیے راضی کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر طالبان کے سینئر حکام اور افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے وفد کا استقبال کیا، افغان طالبان کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو فوٹیج میں وفد کو آمد پر انہیں پرتپاک استقبال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ قاری حنیف جالندھری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود بھی وفد میں شامل ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ سینئر حکام نے کابل روانگی سے قبل اسلام آباد میں وفد کے ارکان کو بریفنگ دی۔
ذرائع نے بتایا کہ علمائے کرام کابل میں اپنے قیام کے دوران ٹی ٹی پی کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے اور انہیں اپنے موقف میں نرمی اور جنگ بندی میں توسیع کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے، کالعدم تنظیم کے کمانڈر بشمول ان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود پاکستانی حکام سے بات چیت کے لیے افغان دارالحکومت میں موجود ہیں۔
اس سے قبل خیبر پختونخوا کے مختلف پختون قبائل کے عمائدین پر مشتمل 57 رکنی جرگہ نے آخری بار جون میں کابل کا دورہ کیا تھا اور ٹی ٹی پی کے کمانڈروں سے ملاقات کی تھی لیکن ان کی بات چیت بے نتیجہ رہی تھی، ذرائع نے بتایا کہ علمائے کرام جنگ بندی کو مؤثر بنانے اور مذاکرات کے لیے اپنی پیشگی شرائط کو نرم کرنے کے سلسلے میں بھی ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالنے کے لیے طالبان کی عبوری حکومت کے سینئر ارکان سے مدد طلب کریں گے۔
ٹی ٹی پی کے اہم مطالبات میں سے ایک سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کو تبدیل کرنا ہے جسے حکومت پہلے ہی ‘ناقابل گفت و شنید’ قرار دے چکی ہے۔