اسلام آباد۔20اگست:امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول نے امریکا اور پاکستان کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ شکوک و شبہات کے ماحول کے بجائے مربوط انداز میں مل کر کام کریں۔ ممتاز امریکی میگزین’’فارن پالیسی‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے سفیر نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اب دہشت گردی کو روکنے میں پاکستان ، امریکا ، چین اور روس کے خیالات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اچھی بات یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کے درمیان مکمل طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کےدرمیان اس سلسلے میں تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان میں تمام فریقین کے مابین افہام وتفہیم ہو،یہی ہم بھی چاہتے ہیں ،امریکا چاہتا ہے کہ تشدد کم ہو،ہم بھی یہی چاہتے ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ ماضی کے ثمرات کا تحفظ ہو ،ہم بھی یہی چاہتے ہیں دہشت گردی کے بارے میں چین،روس سمیت ہم سب پریشان ہیں۔ امریکا میں پاکستانی سفیر نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پاکستان نے کابل کی طرف پیش قدمی میں طالبان کی کوئی مدد کی، افغانستان میں پیش آنے والے واقعات پر گہری نظر ڈالنے سے ایسے تاثر کا غلط ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
اسد مجید نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے ہمیشہ افغانستان میں مکمل طور پر امن عمل کی بحالی میں معاونت کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ کیا طالبان کی تمام قیادت پاکستان سے باہر ہے؟ کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ طالبان کی قیادت دوحہ سے افغانستان منتقل ہوئی ہے۔ پاکستان کے خدشات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ایک جامع حکومت کے خواہش مند ہیں اور یہی توقع رکھتے ہیں کہ ایک جامع امن عمل کے ذریعے اس طرح کی حکومت قائم ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی تازہ صورتحال کے بعض اثرات بھی ہیں لیکن ہم ہر وہ ممکن کوشش کررہے ہیں جو کر سکتے ہیں اور اس میں مزید اضافہ کیا جائےگا۔ توسیعی ’’ٹرائیکا ‘‘(امریکا ، پاکستان ، چین اور روس ) کی 10 اور 11 اگست کو دوحہ میں ایک اچھی ملاقات ہوئی ہے اور ہم تمام گروپوں کی نمائندگی کے حامل اہم شراکت دار وں کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حکومت سازی کے دوران ملک کی متنوع آبادی کا عکس بھی نظر آنا چاہیے۔ ان مقاصد کے حصول کے بارے میں توقعات کے حوالے سے پاکستانی سفیر نے کہا کہ ہم زمینی حقائق دیکھ رہے ہیں اور افغانستان میں طالبان کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان بھی بین الاقوامی برادری کی خواہشات سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی حالیہ پیش قدمی کے دوران تشدد کے بہت زیادہ واقعات نہیں ہوئے اور بعض سکول کھل چکے ہیں۔
مزید برآں طالبان کےبعض رہنمائوں کے خواتین اینکرز نےانٹرویو بھی کئے ہیں۔اسد مجید خان سےالقاعدہ ، اسلامک اسٹیٹ اور دیگر دہشت گردوں کے حوالے اقدامات کے سلسلہ میں انٹیلی جنس اور دیگر امور میں امریکا کی مدد کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ سب سے بنیادی چیز دہشت گردی ہے اور کسی اور فریق کی طرح اس پر ہمیں بھی تشویش ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم امریکا اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو سکا تعاون کریں گے اور ماضی میں بھی ہم نے اس حوالے سے بھرپور تعاون کیا ہے ۔انہوں نے افغانستان سے حاصل ہونے والی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹس اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ اب تک طالبان نے انسانی حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم جیسے مسائل پر عالمی برادری کی بات سنی ہے اور امید ہے کہ وہ ایسا کرتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ وہ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں اور وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عالمی برادری کی نظریں ان پر ہیں۔
بھارت کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کی مہم کو بھارت کی واضح سرپرستی حاصل رہی ہے تاہم افغانستان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے کابل میں اپنا سفارتخانہ بند کردیا ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے صورتحال کی بہتری کے لئے متعدد کاوشوں کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاک بھارت تعلقات کو بھارت کی اندرونی سیاست کی نظر سے دیکھتے ہیں جو صورتحال کی بہتری میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مخالف بیانیہ بھارتی وزیراعظم کی سیاست کے لئے مناسب ہو سکتا ہے اس لئے اس پر وہ مسلسل عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے کشمیر کے مسئلہ کے حوالہ سے بھی تنہا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے کشمیر کی صورتحال مسلسل ابتر ہے۔