الجزائر: جنگل میں لگی آگ بجھانے کے لیے مدد کے لیے جانے والے نوجوان کی ہجوم کے ہاتھوں موت

eAwazاردو خبریں, ورلڈ

ایک نوجوان آرٹسٹ جو الجزائر میں جنگل میں لگی آگ کا مقابلہ کرنے میں مدد کرنے کے لیے گیا تھا لیکن ایک مشتعل ہجوم نے اس کی جان لے لی۔

کیلین ڈیولِن بی بی سی

نو اگست کو الجزائر کے جنگلوں میں ملک کی تاریخ کی بدترین آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ 18 صوبوں میں 71 مقامات پر شعلے بھڑک رہے تھے اور ایسا تین دن تک جاری رہا۔ کم از کم 90 افراد ہلاک ہوئے اور اس سے کہیں زیادہ زخمی۔

دارالحکومت الجیرز کے مشرق میں واقعہ قبائلیہ کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز کی بھرمار ہے۔

ان ویڈیوز میں بے بس دیہاتیوں کو اپنے گھروں سے بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں سے کچھ آگ بجھانے کے لیے جو ہاتھ میں آ رہا تھا استعمال کر رہے تھے۔

آگ لگنے کے دو روز بعد آرٹسٹ جمیل بن اسماعیل نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ وہ ملیانہ میں اپنے گھر سے دو سو میل دور جائیں گے تاکہ ’اپنے دوستوں کی مدد کر سکوں‘۔

اپنے فیس بک پیج پر انھوں نے فوری امداد کی اپیلیں بھی پوسٹ کیں۔

ان کے دوستوں میں سے ایک نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ ایک ’آرٹسٹ تھے، ایک نوجوان تھے جنھیں زندگی اور گیٹار سے پیار تھا۔ وہ پرتشدد انسان نہیں تھے۔‘

Smoke rises from a wildfire in the Kabylie region. Photo: August 2021

،تصویر کا ذریعہAFP

مگر وہ جب الجزائر کے تیزی اوزو صوبے میں پہنچے تو کس کو معلوم تھا کہ ان کی اپنی زندگی ان سے چھین لی جائے گی۔

11 اگست کو سوشل میڈیا پر ایسی فوٹیج گردش کرنے لگی جس میں بظاہر ایک ہجوم جمیل بن اسماعیل پر تشدد کر رہا ہے۔ جمیل پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے یہ آگ لگائی، مقامی لوگوں نے ان پر تشدد کیا اور ان کو جلانے کے بعد ان کی لاش کو دیہات کے مرکزی چوک میں لے جایا گیا۔

ان ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد قومی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ ان کے بھائی نے سوشل میڈیا پر اپیل کی کہ اس فوٹیج کو ہٹا دیا جائے۔ ان کا اس وقت کہنا تھا کہ ان کی والدہ کو ابھی تک معلوم نہیں کہ ان کا بیٹا کیسے ہلاک ہوا ہے۔

ان کے والد کا کہنا تھا کہ وہ ٹوٹ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا بیٹا قبائلیہ کے علاقے میں لوگوں کی مدد کرنے گیا تھا۔ وہ اس خطے سے محبت کرتا تھا۔ انھوں نے اسے زندہ جلا دیا۔‘

مقامی میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق اس پورے خطے میں افواہیں اور شکوک و شبہات پھیل چکے تھے اور بعض لوگ ان گاڑی والوں پر شک کر رہے تھے جن کا رجسٹریشن نمبر اس خطے کا نہیں تھا۔

یہ خوف اور افواہیں مبینہ طور پر ان الزامات کا نتیجہ تھا کہ یہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی ہے۔

جمیل کی ہلاکت سے ایک شام پہلے وزیراعظم ایمن بن عبدالرحمان نے کہا تھا کہ یہ آگ کسی ’مجرمانہ کارروائی‘ کا نتیجہ ہے۔

ٹی وی پر اپنے خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ ’ابتدائی تفتیش سے پتا چلا ہے کہ صوبے میں آگ کو شروع کرنے کے مقامات کو جان بوجھ کر چنا گیا تاکہ اس سے وسیع پیمانے پر نقصان ہو۔‘

اسی روز ملک کے وزیر داخلہ نے صوبے کا دورہ کیا اور کہا کہ ’یہ آگ ان مجرمان نے لگائی ہے جو ہمارے ملک سے نفرت کرتے ہیں۔ ‘

رواں ہفتے الجزائر نے اس آگ کا الزام مراکش پر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس سے اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق حکام اور نہ ہی ملک کے اہم میڈیا چینلز نے آگ کی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی کا ذکر کیا یا یہ کہ موسمیاتی تبدیلی ہی اس آگ کے پھیلنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔

اور یاد رہے کہ جس ہفتے کے دوران یہ آگ لگی اس میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کی پیش گوئی تھی۔

اور تقریباً اسی دوران ایک اہم یو این رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا بھر میں شدید گرمی کی لہروں، قحط، اور سیلابوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جمیل کی ہلاکت کے بعد عوام میں غم و غصہ ہے اور سیاسی بدلے لیے جا رہے ہیں۔

کچھ سوشل میڈیا صارفین نے مبینہ قاتلوں کی تصاویر شیئر کیں اور ان کی شناخت کرنے کی کوشش کی اور بہت سے لوگوں نے انصاف کی اپیل کی ہے۔

اب تک جمیل کی ہلاکت کے سلسلے میں 61 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور کچھ لوگ قبائلیہ کی خود مختاری کی تحریک کے ممبران کی طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں جسے حکام نے مئی میں دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

17 اگست کو ریاستی ٹی وی نے تنظیم کے مشتبہ افراد کی جانب سے اقبالِ جرم کا دعویٰ کیا تھا مگر ابھی تفتیش جاری ہے۔