تہران : طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے وفد کے ہمراہ قومی مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود اور سابق افغان وزیر اور صوبائی گورنر، اسمٰعیل خان سے ایرانی کے دارالحکومت تہران میں ملاقات کی۔افغانستان کے طالبان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی سینئر قیادت نے پیر کے روز ہمسایہ ملک ایران میں افغان حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے خودساختہ جلا وطن رہنماؤں سے ملاقات کی ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ اسلامی گروپ کی حکمرانی کے خلاف مزاحمت بند کریں اور اگر وہ وطن واپس آجائیں تو ان کی سیکیورٹی کی ضمانت دی جائے گی۔
فریقین کے مابین ہونے والے اس پہلے براہ راست رابطے کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے، طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے بتایا کہ متقی نے طالبان کی اس یقین دہانی کا اعادہ کیا کہ وہ تمام افغانوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کوشاں ہیں، جس کے بعد کسی مزاحمت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے وفد کی قیادت کی جس کی ملاقات قومی مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود اور ایک سابق افغان وزیر اور صوبائی گورنر، اسمٰعیل خان سے ہوئی۔جاری کردہ ویڈیو میں متقی نے خود بھی اس ملاقات کی تصدیق کی ہے، جسے طالبان نے ایرانی عہدے داروں کے ساتھ دو روزہ باہمی ملاقات کے اختتام پر جاری کیا ہے۔
متقی کے الفاظ میں ہاں، ہم ایران میں کمانڈر اسمٰعیل خان اور احمد مسعود کے علاوہ وہاں موجود دیگر افغانوں کے ساتھ ملے ہیں۔انہیں یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ”ہم نے ان سب کو یہ یقین دلایا کہ وہ واپس آکر آزادانہ طور پر اور بحفاظت افغانستان میں رہ سکتے ہیں، ہمارا (طالبان) کوئی ارادہ نہیں کہ کسی کے لیے بھی سیکیورٹی یا کوئی اور مسئلہ کھڑا کریں۔اس سلسلے میں میڈیا کا نہ ہی مسعود اور نہ ہی اسمٰعیل خان سے، جو دونوں ہی تاجک نسل سے تعلق رکھتے ہیں،
فوری طور پر کوئی رابطہ ہو سکا، زیادہ تر طالبان پشتون نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور افغانستان میں ان کا گروپ اکثریت میں ہے۔واضح رہے کہ ہمسایہ ملک اور عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالتی رہی ہے کہ وہ قومی سیاسی میں مفاہمت کو فروغ دیں اور ایک جامع حکومت تشکیل دیں جو تمام افغانوں کے انسانی حقوق کی حرمت کو یقینی بنائے، جس کے بعد ہی دنیا کابل پر ان کی حکمرانی جائز ہونے کے بارے میں غور کر سکتی ہے۔
ان 20 سالوں کے بعد امریکی قیادت کی فوج کے ملک سے انخلا کے بعد وسط اگست میں اس اسلام پسند گروپ نے مغربی حمایت یافتہ حکومت کی جگہ افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کیا۔مزاحمتی محاذ نے اقتدار کی منتقلی کی مخالفت کی، جس پر کابل کے شمال میں پنج شیر کے مزاحمتی گڑھ میں دونوں فریق کے درمیان پر تشدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔دوسری جانب ایران کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اختتام ہفتہ طالبان وفد کے اس دورے کی آمد سے یہ مراد نہیں ہے
کہ ایران سرکاری طور پر کابل حکومت کو تسلیم کرتا ہے۔ایرانی ذرائع ابلاغ نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبدالہیان کے حوالے سے کہا ہے کہ انھوں نے افغان عوام کی نقدی کو منجمد کرنے پر امریکہ پر تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ یہ رقم جاری کی جائے تاکہ افغانستان کی معاشی اور انسانی بحران کی صورت حال میں بہتری آ سکے۔