لندن:یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کو بین الاقوامی تعلقات میں ایک کھیل تبدیل کر دینے والا معاملہ قرار دے دیا۔ وہ یورپین پارلیمنٹ کے اسٹراسبرگ میں ہونے والے پلینری سیشن میں افغانستان کے موضوع پر ہونے والی بحث میں بات کر رہے تھے۔ان کی گفتگو کے 2 سیشن تھے، ایک میں انہوں نے ممبران پارلیمنٹ کے سامنے اپنا پالیسی بیان دیا جبکہ دوسرے حصے میں انہوں نے 77 ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے اٹھائے گئے مختلف نکات اور اعتراضات کا جواب دیا۔
اپنے پہلے پالیسی بیان میں انہوں نے افغانستان میں طالبان کی آمد کو تین حوالوں سے پرکھتے ہوئے اسے تین نقطہ ہائے نظر کی صورت میں بیان کیا۔ انہوں نے اس واقعے کو افغانستان کے عوام کے لیے ایک ٹریجڈی، مغرب کے لیے ایک دھچکا اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے ایک ممکنہ گیم چینجر قرار دیا۔انہوں نے کہاکہ کہ اب سوال یہ ہے کہ نئی طالبان حکومت کے ساتھ کیسے معاملات کیے جائیں؟۔اس حوالے سے یورپین یونین اس کوشش میں ہے کہ وہاں یورپین موجودگی ہونی چاہیے کیونکہ ممبر ممالک کے فی الحال سفارت خانے بند ہیں اور وہ فوری طور پر کھولنے کے خواہشمند نہیں ہیں۔یورپین خارجہ امور کے سربراہ نے ایک بات کو دلچسپی سے نوٹ کیا کہ یورپین ممبر ممالک کے وزرائے خارجہ ریجن اور افغانستان کے پڑوسیوں کے ہاں دورے کر رہے ہیں، یقینی طور پر وہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں لیکن ہمیں یہ کام زیادہ بہتر طور پر انجام دینا چاہیے اور مختلف آوازوں کی بجائے ایک آواز نظر آنا چاہیے۔
انہوں نے افغانستان سے انخلاء کی کوششوں میں مدد کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر ہمارے وزراء کے اجلاس میں بہت بحث ہوئی تھی۔بعد ازاں 77 ممبران پارلیمنٹ کو سننے کے بعد جوزپ بوریل نے بحث کو سمیٹتے ہوئے جہاں بحث کی طوالت سے اختلاف کیا وہیں انہوں نے اس دوران اٹھائے گئے نکات کو ایڈریس کیا۔انہوں نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ افغانستان میں 5 ملین لوگوں کے بھوک سے مرجانے کا خطرہ ہے، سردیاں سر پر ہیں اور جب سردی آجائے گی تو خوراک ہوئی بھی تو تقسیم نہیں کی جا سکے گی۔ انہوں نے آبزرویشن دی کہ طالبان کوئی ایک گروہ نہیں بلکہ ان کے اندر بھی اختلاف ہیں، انہوں نے مزید کہاکہ امریکا کے افغانستان سے چلے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یورپ جیو پولیٹیکل سین سے بلکل غالب ہوگیا ہے۔انہوں نے عندیہ دیا کہ یورپ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس حوالے سے اپنی فوج بنائے گا، آخر میں انہوں نے ممبران پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان کے عمل نے ایک بات کو یقینی طور پر دکھایا ہے کہ ہر مسئلے کا صرف فوجی حل ہی نہیں ہوتا، اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت 300 ملین ڈالر سالانہ خرچ کر کے بھی یہ جنگ جیت نہیں سکی۔اس کے علاوہ اپنی گفتگو میں انہوں نے ممبران پارلیمنٹ کے سامنے ایک بات کو خاص طور پر پیش کیا کہ افغانستان میں سیکھا گیا سبق یہ بھی ہے کہ نیشن بلڈنگ یا ریاست سازی اس سے کہیں مشکل ہے جتنا امریکا کے سابق صدر جارج بش نے عراق پر حملے سے پہلے سوچا تھا۔