طالبان کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ طالبان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
بی بی سی کے ساتھ ایک زوم انٹرویو میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکہ کے ساتھ ہونے والے دوحہ معاہدے کی شرائط کو یاد کرواتے ہوئے کہا کہ ان کی کسی بھی ملک کے خلاف مسلح آپریشن کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
دوحہ سے بات کرتے ہوئے سہیل شاہین نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ ان کا حق ہے کہ کشمیر، انڈیا اور کسی بھی دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائیں۔
ان کے مطابق ’ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور یہ کہیں گے مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنے شہری ہیں۔ آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں۔‘
انڈیا پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں سنہ 2014 سے وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔
تین پڑوسی ممالک سے غیر قانونی طور پر آئے ہوئے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے متنازع قانون کو بھی مسلمانوں کو ہدف بنانے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
انڈیا کی طرف سے اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اس فیصلے کے اطلاق کے طریقہ کار پر کئی شہریوں کو غصہ ہے۔
جموں اور کشمیر کئی دہائیوں سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔
امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا اور پھر افغانستان پر پاکستان کے قریب تصور کیے جانے والے طالبان کے کنٹرول سے انڈیا میں کئی حلقوں میں یہ ڈر پیدا ہوا ہے کہ اب طالبان کے اندر گروہ پاکستان کے اندر موجود انڈیا مخالف گروہوں کی طرف جموں اور کشمیر جیسی جگہوں کو بھی اپنا ہدف بنا سکتے۔
وائرل ہونے والے ایک ٹی وی مباحثے کی فوٹیج میں پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی ایک رہنما سے یہ بیان منسوب ہے کہ ’طالبان نے کہا ہے کہ ہو ہمارے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں کشمیر (کو آزاد کرانے) میں مدد دیں گے۔
انڈیا کے لیے مشکل وقت؟
سنہ 2001 سے جب امریکی اتحاد میں افواج نے کابل سے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تھا تو انڈیا طالبان مخالف شمالی اتحاد کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔
اس جنگ کے 20 سال بعد پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان کے اقتدار کو انڈیا کے لیے ایک بڑے سیٹ بیک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا کے افغانستان میں اس وقت کے صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
انڈیا نے اپنا تاثر بہتر بنانے کے لیے افغانستان میں کئی ترقیاتی سکیموں میں اربوں روپے جھونک دیے۔ مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی انڈیا میں یہ ڈر پیدا ہوا ہے کہ یہ سب کچھ اب ضائع ہو جائے گا۔
انڈیا نے 31 اگست کو طالبان سے اپنے پہلے سرکاری رابطے کے دوران دوحہ میں طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔
وزارت خارجہ کی پریس ریلیز کے مطابق اس ملاقات میں انڈیا نے طالبان سے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی صورت انڈیا مخالف سرگرمیوں یا دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چائیں۔
مذاکرات انڈیا کے لیے آسان نہیں
امریکہ، روس اور چین جیسے ممالک کھلم کھلا طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم مسلح گروپ کے ساتھ معاملات طے کرنا انڈیا کے حکام کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا۔
امریکہ کے انخلا کے بعد انڈیا کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی پر کارنیگی انڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے اندر نام نہاد حقانی گروپ، جسے بہترین اور تربیت یافتہ گروپ سمجھا جاتا ہے، نے کابل میں انڈیا کے سفارتخانے سمیت انڈیا کے اثاثوں پر مبینہ طور حملے کیے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور حقانی گروپ کے رہنماؤں کے درمیان قریبی تعلق کی وجہ سے اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ اب یہ ’سمجھوتے کا شکار‘ حقانی گروپ اپنے انڈیا مخالف ایجنڈے پر کاربند رہے گا۔
تاہم سہیل شاہین نے کہا کہ حقانیوں کے خلاف پروپیگنڈہ محض دعوؤں پر مبنی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’حقانی کوئی گروپ نہیں ہے۔ وہ افغانستان کی اسلامی امارت کا حصہ ہیں۔ وہ اسلامی امارت افغانستان ہیں۔‘
انڈیا کے کھٹمنڈو سے دلی جانے والے مسافر بردار طیارے کے اغوا میں بھی طالبان کا (مبینہ) کردار بھی انڈیا کے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس طیارے میں 180 افراد سوار تھے۔
یہ طیارہ قندھار گیا، جہاں پھر اغواکاروں کے مطالبے پر مسافروں کے بدلے تین عسکریت پسندوں کی انڈیا کی قید سے رہائی ہوئی۔
کارنیگی انڈیا رپورٹ کے مطابق سنہ 1999 میں انڈیا کے طیارے کے اغوا کے بعد یہ (طالبان) کا ہی گروپ تھا جنھوں نے پاکستان تک ان رہا ہونے والے دہشتگردوں کو محفوظ طریقے سے پہنچایا۔
سہیل شاہین کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے طیارے کے اغوا میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اس حوالے جو مدد فراہم کی اس پر انڈیا کی حکومت کو ان کا شکرگزار ہونا چائیے۔
سہیل شاہین کے مطابق انڈیا نے ہمیں درخواست کی کہ طیارے میں فیول کم رہ گیا ہے اور اس کے بعد پھر ہم نے محصور مسافروں کی رہائی کے لیے مدد فراہم کی۔
متعلق سہیل شاہین نے طالبان مخالف پروپیگنڈے کا الزام انڈیا کے میڈیا پر عائد کیا ہے۔
NEWS Credit BBC