مائیکروچپ کی کمی بحران کی شکل اختیار کرگئی

eAwazاردو خبریں, ورلڈ

لندن:دنیا بھر میں بالخصوص کارسازی کے شعبے میں مائیکروچپ کی کمی ایک بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس میں کووڈ وبا، عالمی تجارتی تناؤ اور ممالک کی بدلتی ہوئی ترجیحات بھی شامل ہیں۔لگتا یوں ہے کہ ایک ساتھ کئی عناصرنے مائیکروچپ کے بحران کو جنم دیا ہے۔ پہلے کووڈ کی وجہ سے لوگ گھروں تک محدود رہے اور کاروں کی عالمی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوئی جس سے بڑی کمپنیوں نے پیداوارنصف کردی۔ اسی لحاظ سے متعلقہ چپ ساز کمپنیوں نے اپنی پیداوار کم کردی تاہم کئی ممالک میں حالات بہتر ہونے کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوا تو اب چپ کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔واضح رہے کہ کاروں، بسوں اور دیگر سواریوں کے برقی نظام، سینسر اور دیگراہم امور کے لئے برقی چِپ لگائی جاتی ہیں۔ مائیکروچپ ہی کی بدولت جدید کاروں کے بریک کام کرتے ہیں اور اسٹیئرنگ گھوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آب اوڈی، بی ایم ڈبلیو سمیت کئی کارساز کمپنیوں میں مائیکروچپ کی شدید کمی پیدا ہوچکی ہے۔بحران کی ایک اور وجہ اشیا کی ترجیحی خریداری بھی ہے یعنی کووڈ لاک ڈاؤن میں لیپ ٹاپ، کیمروں، ٹیبلٹ کی فروخت کئی گنا بڑھی۔ والدین کو بچوں آن لائن کلاسوں کے لیے لیپ ٹاپ درکارتھے تو گھروالوں کو دوردراز عزیزوں سے بات کرنے کے لیے ٹیبلٹ خریدنا پڑے۔ یوں چپ ساز اداروں نے آٹو انڈسٹری پر توجہ کم کرکے گھریلو مصنوعات سازی میں منتقل ہوگئی۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ سیمی کنڈکٹر انڈسٹری ایسوسی ایشن (ایس آئی اے) کے مطابق جنوری 2021 تک مائیکروچپ سازی کی صنعت 40 ارب ڈالر تک جاپہنچی کیونکہ ان چپس چھوٹے آلات میں لگائی جارہی ہیں۔اب یہ حال ہے کہ ایک بڑٰی کارساز کمپنی نے تائیوان کی چپ ساز کمپنی سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ان کی پیداوار بڑھائیں ورنہ ان کی کمپنی دم توڑدے گی۔ واضح رہے کہ دنیا کی 80 فیصد مائیکروچپ تائیوانی کمپنیاں بناتی ہیں اور اس میں پانی کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ تائیوانی چپ ساز کمپنیوں کی تنظیم (ٹی ایس ایم سی) کے مطابق ملک کے درجن چپ ساز ادارے ایک روز میں ڈیڑھ لاکھ ٹن پانی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن تائیوان میں ایک عرصے خشک سالی کا راج رہا جس سے چپ سازی پر بھی فرق پڑا۔تاہم کارسازی کے سے ہٹ کر اس وقت مائیکروچپ کا بحران ہمہ وقت بڑھ رہا ہے۔ اس ضمن میں پہلی خبریہ ہے کہ کل ریلیز ہونے والے آئی فون 13 کی قیمت کچھ زیادہ ہوسکتی ہے اور ایپل کمپنی نے اس کا ذمے دار بھی چپ کے بحران کو ٹھہرایا ہے۔ اسی لیے ماہرین اس دور کو ’مائیکروچپ کا عالمی قحط‘ قرار دے رہے ہیں جو اگلے برس مزید شدید ہوجائے گا اور یوں 2023 کے آخرتک ہی حل ہوسکے گا۔