اوہایو: امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ کم سوتے ہیں وہ الٹی سیدھی چیزیں کھانے کی عادت میں مبتلا ہو کر موٹاپے کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔یہ دریافت 18 سے 60 سال کے تقریباً 20 ہزار امریکیوں کی مجموعی صحت، موٹاپے اور کھانے پینے کی عادات سے متعلق دس سالہ سروے میں جمع کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد ہوئی ہے۔واضح رہے کہ رات کے وقت سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند کو صحت کے نقطہ نگاہ سے ’’بالکل ٹھیک‘‘ یعنی معمول کے مطابق قرار دیا جاتا ہے۔
اب تک دل اور دماغ کی کئی بیماریوں کا تعلق معمول سے کم اور زیادہ، دونوں طرح کی نیند کے ساتھ ثابت کیا جاچکا ہے۔البتہ یہ پہلی تحقیق ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ معمول سے کم نیند کس طرح موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر کرسٹوفر ٹیلر اور ان کے ساتھیوں کی اس تحقیق پتا چلتا ہے کہ معمول سے کم وقت سونے والے اکثر لوگ جب رات کو دیر تک جاگ رہے ہوتے ہیں تو اسی دوران وہ کچھ نہ کچھ کھانے کی شدید ضرورت محسوس کرتے ہیں۔یہی ضرورت پوری کرنے کےلیے وہ چپس، برگر، بروسٹ اور ایسی دوسری چیزیں کھاتے ہیں جن کا شمار ’’جنک فوڈ‘‘ یعنی الٹی سیدھی چیزوں میں ہوتا ہے۔رات گئے ایسی چیزیں کھانے کے بعد وہ جسمانی سرگرمی (مثلاً چہل قدمی) بھی نہیں کرتے۔ نتیجتاً ان غذاؤں میں شامل چکنائی، شکر، کیفین اور کاربوہائیڈریٹس زیادہ مقدار میں ان کے جسموں میں جمع ہوتے رہتے ہیں۔اگر یہی معمول لمبے عرصے تک جاری رہے تو وہ افراد تیزی سے موٹے بھی ہوجاتے ہیں چاہے وہ دن میں کتنی ہی مشقت کیوں نہ کرلیں۔
اس تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ دن کے اوقات میں جنک فوڈ کی یکساں مقدار استعمال کرنے والوں میں موٹاپے کی شرح اتنی زیادہ نہیں تھی کہ جتنی رات گئے یہ سب کچھ، اتنی ہی مقدار میں کھانے والوں میں دیکھی گئی۔پروفیسر ٹیلر کے مطابق، اس کی ایک اور ممکنہ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ رات کو دیر تک جاگنے کی کوشش میں ہم ان چیزوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جو کم وقت میں تیار ہوجائیں اور جنہیں کھانے یا پینے پر ہم میں جلد ہی زیادہ توانائی آجائے۔’’اس سے وقتی طور پر تو کچھ فائدہ ہوتا ہے لیکن لمبے عرصے میں یہی عادت ہمارا وزن بے ہنگم انداز سے بڑھنے کا باعث بن جاتی ہے،‘‘ پروفیسر ٹیلر نے کہا۔اس تحقیق کی تفصیلات ’’جرنل آف دی اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹکس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔