پیرس / پٹس برگ: فرانسیسی اور امریکی ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم نے ’’بیکٹیریوفیج وائرس‘‘ اور ایک اینٹی بایوٹک کے ملاپ سے سخت جان بیکٹیریا کا خاتمہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ریسرچ جرنل ’’ڈِزیز ماڈلز اینڈ مکینزمز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق فی الحال ایک چھوٹی سی مچھلی ’’زیبرا فش‘‘ پر کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) کے خلاف جرثوموں (بیکٹیریا) کی بڑھتی ہوئی مزاحمت اس وقت ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے جسے حل کرنے کےلیے دنیا بھر کے طبّی ماہرین سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔فرانس کی مونت پیلیے یونیورسٹی اور امریکا کی یونیورسٹی آف پٹس برگ کے ماہرین نے ان تجربات کے دوران زیبرا فش کو ’’مائیکوبیکٹیریم ایبسیسس‘‘ (Mycobacterium abscessus) کہلانے والے ایک سخت جان جرثومے سے متاثر کیا۔یہ جرثومہ انسانی پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے جبکہ اینٹی بایوٹکس بھی اس کے خلاف غیر مؤثر ہوتی جارہی ہیں۔وہ زیبرا مچھلیاں جنہیں صرف اینٹی بایوٹک دی گئی، اُن میں سے صرف 40 فیصد کو دوا سے افاقہ ہوا۔
اسی طرح جن زیبرا مچھلیوں میں صرف ’’بیکٹیریوفیج وائرس‘‘ داخل کیے گئے، ان میں بھی صحت یاب ہونے کی شرح 40 فیصد کے لگ بھگ رہی۔البتہ جن زیبرا مچھلیوں کا علاج اینٹی بایوٹک اور بیکٹیریوفیج وائرس سے ایک ساتھ کیا گیا، ان میں یہ صحت یابی کی شرح 70 فیصد تک دیکھی گئی۔یہ تجربات ابتدائی نوعیت کے ہیں جنہیں اگلے مرحلے میں مزید جانوروں پر کیا جائے گا۔ اگر اس مرحلے پر بھی کامیابی حاصل ہوئی تو پھر یہی تجربات انسانوں پر بھی کیے جائیں گے لیکن محدود پیمانے پر۔ان محدود انسانی تجربات کی کامیابی پر ان کا دائرہ بڑھایا جائے گا اور کامیابی کے بعد ہی یہ علاج کا یہ طریقہ رائج ہوسکے گا۔اس پورے عمل میں ممکنہ طور پر مزید سات سے آٹھ سال لگ سکتے ہیں لہٰذا بیکٹیریوفیج وائرس اور اینٹی بایوٹکس کے ملاپ سے بیماریوں کے بہتر علاج کی فوری توقع نہیں کی جاسکتی۔