امریکی محکمہ انصاف اور 15 ریاستوں کی جانب سے ایپل کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے کمپنی پر اسمارٹ فون مارکیٹ میں اجارہ داری کے ذریعے چھوٹے حریف کمپنیوں کو نقصان پہنچانے اور قیمتوں میں اضافے کا الزام عائد کیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب امریکی ریگولیٹرز کی جانب سے ایپل کے خلاف اس طرح کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے ۔
اس سے قبل امریکی حکومت کی جانب سے گوگل، میٹا اور ایمازون جیسی کمپنیوں کے خلاف اس طرح کے مقدمات دائر کیے جاچکے ہیں۔
یہ مقدمہ نیو جرسی کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں کہا گیا کہ ایپل نے اسمارٹ فون مارکیٹ میں غیر قانونی اجارہ داری برقرار رکھی ہوئی ہے اور یہ کمپنی اس اجارہ داری کے ذریعے صارفین، ڈویلپرز، آرٹسٹس، پبلشرز اور دیگر سے زیادہ پیسے اکٹھے کر رہی ہے۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ایپل کی جانب سے مخالف کمپنیوں کو اپنی مقبول ڈیوائسز کے ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر فیچرز تک رسائی سے روکا جاتا ہے۔
عدالت میں دائر مقدمے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایپل کمپنی کراس پلیٹ فارم سپر ایپس اور کلاؤڈ اسٹریمنگ ایپس کو روکنے کے لیے پرائیویٹ اے پی آئیز استعمال کرتی ہے جس کے باعث کراس پلیٹ فارم ٹیکنالوجیز جیسے میسجنگ، اسمارٹ واچز اور ڈیجیٹل واچز پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
امریکی حکومت کی جانب سے عدالت سے درخواست کی گئی کہ ایپل کو ایسا کرنے سے روکا جائے جبکہ مسابقتی عمل بحال کرنے کے لیے ہر طرح کا ریلیف دیا جائے۔
امریکی حکومت کی جانب سے مقدمہ دائر کیے جانے پر ایپل کی مارکیٹ ویلیو میں 113 ارب ڈالرز کی کمی آئی۔
دوسری جانب ایپل نے مقدمے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے حقائق اور قانون کے منافی قرار دیا۔
ایپل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کمپنی کی جانب سے پوری قوت سے عدالت میں اپنا دفاع کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ ایپل کو یورپ میں بھی ڈیجیٹل مارکیٹس ایکٹ پر عملدرآمد کے حوالے سے تحقیقات کا سامنا ہے۔