بلیو ٹوتھ کو عام افراد کے لیے 2 دہائیوں قبل متعارف کرایا گیا تھا اور اب یہ ٹیکنالوجی متعدد مصنوعات کا حصہ بن چکی ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق صرف 2022 میں ہی بلیوٹوتھ سے لیس 5 ارب ڈیوائسز فروخت کی جائیں گی اور یہ تعداد 2026 تک 7 ارب ہوجائے گی۔
بلیوٹوتھ اب ہر ڈیوائس کا حصہ ہے یعنی اسمارٹ فونز سے لے کر فریج اور لائٹ بلب میں بھی اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مگر یہ ٹیکنالوجی عام تو ہوچکی ہے مگر اب بھی اکثر پراڈکٹس کو کنکٹ کرنا سردرد بن جاتا ہے، اب یہ نئی ڈیوائس کو تلاش کرنے کا مسئلہ ہو، ڈیوائسز سے ہیڈ فون منسلک کرنا یا رینج زیادہ ہونا، مختلف مسائل کا سامنا لوگوں کو ہوتا ہے۔
کارنیگی میلون یونیورسٹی کے ہیومین کمپیوٹر انٹرایکشن کے پروفیسر کرس ہیریسن نے کہا کہ ہمارا بلیو ٹوتھ سے محبت اور نفرت دونوں طرح کا تعلق ہے، کیونکہ جب یہ ٹیکنالوجی کام کرتی ہے تو یہ حیرت انگیز ہوتی ہے اور جب کام نہیں کرتی تو آپ کا دل کرتا ہے کہ اپنے بالوں کو نوچیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹیکنالوجی کے ساتھ آسانی سے بلاتعطل کنکٹویٹی کا وعدہ کیا جاتا ہے ۔
اس کی وجہ بھی اس کم قیمت ٹیکنالوجی کے اندر ہی چھپی ہے۔
بلیوٹوتھ کا نام 9 ویں صدی کے ایک بادشاہ ہیرالڈ بلیو ٹوتھ گروسمین سے لیا گیا تھا۔
بلیو ٹوتھ کے ابتدائی پروگرامرز نے وائرلیس ٹیکنالوجی کے لیے اسے یہ کوڈ نام دیا اور پھر یہ نام مستقل ہوگیا۔
یہ ٹیکنالوجی وائی فائی سے مختلف ہے کیونکہ اس کی رینج مختصر ہوتی تھی اور آج بھی اس کی رینج میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہوا۔
اب بلیوٹوتھ کو اکثر صارفین اپنے فونز اور پورٹ ایبل اسپیکر فنکشن کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
بلیو ٹوتھ سگنل بغیر لائسنس والی ریڈیو لہروں پر سفر کرتے ہیں جو کہ ہر ایک استعمال کرسکتا ہے، اس وجہ سے اس ٹیکنالوجی کی ڈویلپمنٹ اور لوگوں میں اسے مقبول بنانا آسان ہوا، مگر اس کی ایک قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔
بلیوٹوتھ کو متعدد دیگر مصنوعات جیسے ریموٹ کنٹرول اور دیگر کے ساتھ ان ریڈیو لہروں کو شیئر کرنا ہوتا ہے، جس سے بلیو ٹوتھ کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔
کرس ہیریسن نے بلیو ٹوتھ کوریج میں مسائل کی دیگر وجوہات پر بھی روشنی ڈالی جن میں سائبر سکیورٹی مسائل بھی شامل ہیں جو اس وقت سامنے آتے ہیں جب ڈیٹا کو وائرلیس کے ذریعے ٹرانسمیٹ کیا جاتا ہے۔
اگر آپ اپنے گھر میں ایک بلیو ٹوتھ اسپیکر کا سیٹ اپ بناتے ہیں تو آپ کی خواہش ہوگی کہ چند فٹ کی دوری تک کوئی اور اس ڈیوائس سے کنکٹ نہ ہوسکے، مگر کمپیوں کی جانب سے ایسی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔
تو اس صورت میں کئی بار ڈیوائس خودکار طور پر پیئر موڈ پر کام کرنے لگتی ہے اور سگنل کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
مگر کاروباری ادارے اور صارفین کی جانب سے بلیوٹوتھ کو اپنانے کا سلسلہ جاری ہے، مثال کے طور پر ایپل نے بھی اپنے بلیوٹوتھ پر کام کرنے والے ائیربڈز، ائیر پوڈز وغیرہ متعارف کرائے جبکہ دیگر کمپنیوں کی بھی ایسی ڈیوائسز عام دستیاب ہیں۔
تمام تر خامیوں کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیوٹوتھ ٹیکنالوجی کی طلب میں کمی کا امکان نہیں کیونکہ اس کا کوئی متبادل ہی موجود نہیں۔