بی بی سی نیوز: انڈیا کی ریاست بہار کا تھالپوش گاؤں دیکھنے میں پُرسکون لیکن اندر سے بے چین ہے۔ یہاں 15 فروری کو نوادہ علاقے کی پولیس نے سائبر کرائم میں مبینہ طور پر ملوث 33 لوگوں کو ایک ساتھ گرفتار کیا ہے اور ان میں سے 31 کا تعلق بہار کے نوادہ ضلع سے تھا۔
واقعے کے پانچ دن بعد جب بی بی سی کی ٹیم گاؤں پہنچی تو صرف بوڑھے مرد و خواتین اور چھوٹے بچے نظر آئے۔ کھیتوں میں بھی کوئی نوجوان کام کرتا نظر نہیں آیا۔ گاؤں والے باہر سے آنے والے ہر شخص کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن گاؤں میں پھیلی اس خاموشی کے درمیان کبھی کبھی رونے کی مدھم آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
گاوں کی شرویلا دیوی رو رہی تھیں۔ ان کے 19 سالہ بیٹے گلشن کمار کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ گلشن نے سال 2019 میں 10ویں کا امتحان فرسٹ ڈویژن کے ساتھ پاس کیا تھا۔ انھیں بہار حکومت کی جانب سے 10 ہزار روپے بطور انعام بھی دیے گئے تھے۔
شرویلا دیوی کہتی ہیں ’انھیں پیسوں سے اُس نے ایک بڑا فون لیا تھا۔ بعد میں وہ انٹر کے امتحان میں فیل ہو گیا، اس لیے اس نے اپنا پرانا فون بیچ کر نیا خرید لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے دوبارہ انٹر کی پڑھائی کے لیے ایک اور اچھے فون کی ضرورت ہے۔‘
شرویلا کو بیوہ پینشن کے طور پر ماہانہ صرف 400 روپے ملتے ہیں اور ان کا گھر بہت ہی چھوٹا ہے۔ ان کے گھر میں صرف ایک چیز بہت سنبھال کر سیاہ بریف کیس میں رکھی گئی ہے اور وہ ہے گلشن کی قابلیت کا ثبوت دینے والے سرٹیفکیٹ۔
بہار کا تھالپوش گاؤں 15 فروری کو اس وقت خبروں میں آیا جب نوادہ پولیس کی ایک ٹیم نے یہاں سے خفیہ اطلاع کی بنیاد پر 33 لوگوں کو گرفتار کیا۔
پولیس کے مطابق گرفتار افراد سائبر کرائم میں ملوث ہیں جن میں دو کم سن لڑکے بھی شامل ہیں۔ گرفتار شدہ لوگوں کی عمریں 15 سے 40 سال ہیں۔ ان گرفتار افراد سے 46 موبائل فونز، تین لیپ ٹاپ، جعلی مہریں اور کئی کمپنیوں کی ڈیٹا شیٹس ملی ہیں۔
علاقے کے سب ڈویژنل افسر مکیش کمار ساہا نے کہا، ’یہ لوگ گیس ایجنسی دلوانے کا جھانسہ دے کر اور فی الحال اطہر نامی الیکٹرانک سکوٹر ایجنسی دلوانے کے نام پر لوگوں کو ٹھگ رہے تھے کسی دوسری ریاست کے ایڈریس اور نام پر سِم جاری کروا کر ملک بھر کے ممکنہ گاہکوں سے رابطہ کرتے تھے اور اگر گاہک ان کی باتوں میں پھنس جاتا تو رجسٹریشن چارجز، پروسیسنگ فیس وصول کرتے تھے اور ایجنسی کا منظوری لیٹر بھی جاری کرتے تھے۔‘
مکیش کمار کا کہنا ہے کہ جن کھاتوں میں یہ لوگ پیسے لیتے تھے ان کی معلومات حاصل کر کے انھیں منجمد کیا جا رہا ہے۔
15 فروری کو نوادہ پولیس کی ایک ٹیم دوپہر ایک بجے کے قریب گاؤں پہنچی۔ یہاں پولس نے کھیتوں میں موجود بیشتر نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔ پولیس گاؤں کے رہائشی حصے میں نہیں گئی بلکہ کھیتوں میں ہی موجود لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
حالانکہ گاؤں کے کچھ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں اس طرح کا کام ہوتا ہے لیکن گرفتار ہونے والوں کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ وہ لوگ بے قصور ہیں۔
تقریباً 3000 کی آبادی والے تھالپوش گاؤں میں تمام ذاتوں کے لوگ رہتے ہیں۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ کسی اور ریاست میں کھیتی باڑی، مزدوری یا نجی کام کرتے ہیں یا گاؤں میں ہی چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔
نیوز سورس بی بی سی نیوز