سان فرانسسکو: دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی بدولت ٹیکسٹ کو اس سے وابستہ تصاویر میں بنانے والی تصاویر اور امیج سازی کا تصور عام ہو رہا ہے۔ اس ضمن نے ٹک ٹاک نے اپنی ایپ کے اندر ہی ٹیکسٹ ٹو امیج کی سہولت پیش کی ہے۔
واضح رہے کہ ’اے آئی گرین اسکرین‘ نامی یہ فلٹر بہت سے ممالک میں دستیاب ہے۔ ٹک ٹاک نے اسے ایک افیکٹ کا نام دیا ہے۔ اپنے نام کی طرح اگرچہ بننے والی تصویر اتنی اچھی تو نہیں ہوتی لیکن ٹک ٹاکر اسے پس منظر (بیک گراؤنڈ) کی صورت میں شامل کرسکتے ہیں۔ چاہے وہ آڈیو ہو یا ویڈیو ہو، اسے دونوں طرح سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
تاہم اب بھی یہ گوگل کے ’امیجن‘ متن سے تصویر کاڑھنے والے سافٹ ویئر سے بہت پیچھے ہیں اسی طرح اوپن اے آئی اور ڈیل ای ٹو بھی اس سے آگے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ تجریدی (ایبسٹریکٹ) آرٹ کے نمونے بناتا ہے اور تصاویر ڈولتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح ٹک ٹاک دیکھنے والے گمان کرتا ہے کہ شاید وہ خوابوں کی تصاویر کی طرح کوئی تصویر دیکھ رہا ہے۔
اس کے مقابلے میں دیگر ماڈل پر اگر آپ خلانورد لکھیں تو یا پانی میں پھول کی خواہش کریں تو وہ حقیقت سے قریب تر تصاویر بناتا ہے لیکن ٹک ٹاک فلٹر میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈجیٹل تجزیہ نگاروں نے اسے خاص پسند نہیں کیا ہے۔
دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے اور شاید کچھ رکاوٹیں بھی درپیش ہوسکتی ہیں۔ اول، لکھی ہوئی تصویر بنانے کے لیے بہت زیادہ کمپیوٹر قوت کی ضرورت ہوتی ہے، دوم اگر کوئی تشدد والی تصویر کی خواہش ظاہر کی جائے تو مزید دھندلی تصاویر سامنے آتی ہیں۔
لیکن ٹک ٹاک کو ایک داد دینی ہوگی کہ اس کا جنریٹر بہت تیزی سے تصاویر بناتا ہے جس کا اعتراف ماہرین نے بھی کیا ہے۔