سان فرانسسكو: گوگل نے اپنی اشتہاراتی پالیسی کے لیے بہت بڑے پیمانے پر تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں اینڈروئڈ آلات کےلیے صارفین کی پسند کی نگرانی اور ایڈ ٹریکنگ جیسے عمل کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے گا۔
اس سے قبل خود ایپل کمپنی نے آئی فون پر بھی پرائیوسی اور نگرانی کے مسائل پر اپنے پروٹوکول پر نظرثانی کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب فیس بک ہو یا گوگل ان پر قانون ساز اداروں کا شدید دباؤ اور سخت قوانین کا خدشہ بھی ہے تاہم یہ کمپنیاں صارفین کا ڈیٹا لے کر خود اربوں روپے کمارہی ہیں۔
گوگل کا اینڈروئڈ اور ایپل کا آئی او ایس دنیا بھر کے اربوں آلات میں چل رہے ہیں اور ان میں معمولی تبدیلی سے اربوں افراد متاثر ہوسکتےہیں۔
گوگل نے اپنے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ اب ہم اشتہارات دکھانے کا ایک مؤثرطریقہ پیش کررہے ہیں جہاں صارفین کی معلومات محفوظ ہوں گی اور کاروباری اور ڈویلپر طبقہ بھی آگے بڑھے گا۔
اس سے قبل ایپل نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ اب صارفین کو یہ اختیار ہوگا کہ آیا ان کی آن لائن سرگرمیوں کو نوٹ کیا جائے یا نہیں جس کا تعلق بالخصوص اشتہارات دکھانے سے تھا۔ ایپل نے اس میں پرائیویسی پر زور دیا تھا لیکن منع کرنے کے باوجود صارفین کو اشتہارات موصول ہوتے رہتے تھے۔
ایپل کے اس فیصلے سے اگرچہ اشتہارات کی بھرمار پر کچھ فرق تو پڑا لیکن فیس بک جیسی کمپنی گزشتہ برس بڑے پیمانے پر اپنے اشتہارات نہ دکھاسکی جس میں دس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس وقت گوگل لوگوں کی سرچ اور دلچسپی کی مدد سے ان کے لیے ٹارگٹ اشتہار دکھاتا ہے۔ لیکن یہ بھی کہا ہے کہ یہ سیٹ اپ اگلے دو سال تک برقرار رہے گا۔
لیکن گوگل نے کہا ہے کہ وہ پرائیویسی کو سخت کررہا ہے اور تھرڈ پارٹی تک عوامی ڈیٹا کی رسائی بھی محدود کررہا ہے۔ لیکن یہ بھی کہا کہ یکلخت پابندیوں سے کاروباری حلقوں اور ڈویلپرز کی طویل محنت کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی ہے۔ اس طرح ڈجیٹل اشتہار کی عالمی صنعت شدید متاثر ہوگی۔
واضح رہے کہ اشتہارات ہی گوگل کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ مثلاً گوگل ایلفابیٹ نے گزشتہ برس 60 ارب ڈالر کمائے جس میں 80 فیصد رقم اشتہارات سے حاصل کی گئی تھی۔
ان بڑے اداروں کو لگام ڈالنے کے لئے سب سے پہلے یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ضابطے اور قوانین بنائے اور اب امریکہ میں بھی اس پر کام ہورہا ہے۔ جنوری کے بعد امریکہ میں گوگل کے خلاف عدالتی درخواستوں کے ڈھیر لگے ہیں جن میں عوامی معلومات خفیہ رکھنے کے لیے سخت قوانین اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔