ماسکو: کورونا کی عالمی وبا نے پوری دنیا کو کئی مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اب عالمی طور پر روزانہ لاکھوں فیس ماسک کوڑے دانوں میں پھینکے جارہے ہیں لیکن اچھی خبریہ ہے کہ اب ان سے کم خرچ اور مؤثر بیٹیریاں بنائی جاسکتی ہیں۔
2020 میں کئے گئے ایک مطالعے سے انکشاف ہوا تھا کہ کورونا وبا کے ابتدائی چند ماہ میں پوری دنیا میں 129 ارب فیس ماسک استعمال کے بعد تلف کئے گئے اوریوں زمین، فضا اور سمندروں میں ان کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔
ماسک کے اس کچرے سے تعمیراتی خام مال اور سڑک بنانے کا کام تو لیا ہے لیکن اب پہلی مرتبہ ماسک سے سستی، مؤثراور پائیدار بیٹریاں بنانے کی سنجیدہ پیشرفت ہوئی ہے۔
سب سے پہلے استعمال شدہ ماسک کو صاف اور جراثیم سے پاک کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں گرافین کی روشنائی میں ڈبویا گیا۔ اگلے مرحلے میں ماسک کو دبا کر انہیں 140 درجے سینٹی گریڈ تک گرم کیا گیا۔ پھر ان سے باریک گولیاں بنائی گئیں جو بیٹری کے برقیروں (الیکٹروڈز) کی طرح کام کرتی ہیں۔ ان کے درمیان حاجز( انسولیشن) کی پرتیں بھی لگائی گئیں اور وہ بھی پرانے ماسک سے بنائی گئی ہیں۔
اگلے مرحلے میں اس پورے نظام کو ایک الیکٹرولائٹ محلول میں ڈبوکر اس پر حفاظتی پرت چڑھائی گئی ہے اور وہ بھی طبی کچرے سے بنائی گئی تھی جن میں گولیوں کے خالی بلسٹر پیک بھی شامل ہیں۔
اگرچہ اس سے بھی اربوں ماسک صاف کرنے میں معمولی مدد ملے گی لیکن اس کے استعمال کی کوئی راہ ضرور نکلے گی۔ یہ تحقیق روس کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کی ہے اور ان کا دعویٰ ہہے کہ ماسک کی بیٹریوں سے انہوں نے 99.7 واٹ آور فی کلوگرام بجلی حاصل کی ہے جو ایک اہم کامیابی بھی ہے۔ یہ معیار لیتھیئم آئن بیٹریوں کے قریب قریب ہے جو عام استعمال ہورہی ہیں۔ لیتھیئم آئن بیٹریوں سے 100 تا 265 واٹ آور فی کلوگرام بجلی حاصل ہوسکتی ہے۔
اس میں سائنسدانوں نے کیلشیئم کوبالٹ آکسائیٹ پرووسکائٹ کے نینوذرات ملاکر اسے مزید بہتر بنایا ہے۔ اس سے انرجی ڈینسٹی ( توانائی کی کثافت) دوگنی ہوچکی ہے جو 208 واٹ آور فی کلوگرام تک ہے۔ لیکن متروکہ ماسک سے بنی بیٹریوں کو بازار تک پہنچنے میں اب بھی کئی برس لگ سکتے ہیں۔