اسلام آباد: جڑواں شہروں میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ماہرین نے عوام کو خبردار کرتے ہوئے مزید حفاظتی اقدامات پر زور دیا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں ڈینگی بخار کی نئی لہر کے تناظر میں عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ پانی کے ذخائر کو کھلا نہ رکھیں۔ ایئرکنڈیشنڈ اور گملے کا پانی ضائع کردیں تاکہ مادہ مچھر وہاں نسل خیزی نہ کرسکیں۔ عام طور پر ٹائرپنکچر کے برتن، دھاتی ڈرم، مٹی کے برتن اور کنکریٹ کی چھوٹی چاردیواری میں پانی رکھنا ایک عام عمل ہے اور یہ ڈینگی مچھروں کے لیے ایک موزوں پناہ گاہ ہوتی ہیں۔
صاف پانی میں مادہ مچھر انڈے دیتی ہے اور یوں ڈینگی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ طبی ماہر ڈاکٹر وسیم خواجہ نے کہا کہ ڈینگی اب بھی عوامی مرض سے لاحق ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈینگی بخار بہت شدید ہوتا ہے جو نومولود، بچوں اور بڑوں کو یکساں متاثرکررہا ہے۔
ڈاکٹر خواجہ نے کہا کہ پاکستان میں ڈٰینگی وائرس کی چاروں اقسام دریافت ہوچکی ہیں جن میں ایڈس ایجپٹیائی مچھر سے پھیلنے والا ڈینگی سب سے شدید ہے اور عام بھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تحت لوگوں کی بڑی تعداد ڈینگی سے متاثر ہوری ہے۔ بالخصوص پانی کے ذخائر اور کوڑا کرکٹ والے علاقوں میں ڈینگی کی وبا تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
ڈاکٹر وسیم نے بتایا کہ ایڈس ایجپٹیائی کی مادہ خون چوستی ہے اور ڈینگی وائرس ایک سے دوسرے انسان تک منتقل کرتی رہتی ہے۔ انسانی خون میں یہ وائرس دو سے سات روز تک موجود رہتا ہے اور اسی دوران وہ ڈینگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ تاہم ڈینگی کی علامات عمر کے لحاظ سے مختلف ہوسکتی ہیں۔