اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس پاکستان میں اموات کی تیسری بڑی وجہ قرار

eAwazصحت

اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کی وجہ سے ہونے والی انفیکشنز کے نتیجے میں پاکستان میں سالانہ 3 لاکھ افراد براہ راست جاں بحق ہو رہے ہیں، جبکہ سالانہ 7 لاکھ افراد مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو کر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

کراچی میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکام اور ماہرین صحت نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس یا اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف بیکٹیریا میں بڑھتی ہوئی مزاحمت دل کی بیماریوں اور ماں اور بچوں کی ہلاکتوں کے بعد پاکستان میں اموات کا تیسرا بڑا سبب ہے۔

پاکستان، چین اور بھارت کے بعد اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں صرف 2023 میں 126 ارب روپوں کی اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کی گئیں۔

ماہرین نے کہا کہ عوام کو چاہیے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات مستند ڈاکٹروں کے مشورے کے بغیر اور خود میڈیکل اسٹور سے خرید کر استعمال نہ کریں۔

کانفرنس کا انعقاد معروف فارماسیوٹیکل کمپنی گیٹس فارما نے وفاقی وزارت صحت، ہیلتھ سروسز اکیڈمی اور قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد کے اشتراک سے کیا تھا۔

کانفرنس میں 1400 سے زائد ماہرین صحت بشمول وفاقی اور صوبائی ہیلتھ سیکریٹریز، چاروں صوبوں کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ، پاکستان کی 13 سے زائد میڈیکل سوسائٹیز کے صدور اور جنرل سیکریٹریز سمیت میڈیکل کے طلبہ، اور صحت سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر شہزاد علی خان کا کہنا تھا کہ اینٹی بائیوٹکس جادوئی ادویات تھیں جن کی وجہ سے عظیم جنگوں اور عالمی وباؤں کے دوران کروڑوں انسانوں کی جانیں بچائی گئیں، لیکن کچھ عرصے سے ان ادویات کا غیر ضروری اور بے تحاشہ استعمال ان ادویات کو غیر موثر بنا رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا بغیر طبی مشورے کے استعمال، ڈاکٹروں کی جانب سے مریضوں میں ان کا بے تحاشہ استعمال، اور اتائیوں کی حرکتوں کی وجہ سے جراثیموں میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو رہی ہے جو کہ اب ایک عالمی طبی چیلنج بنتا جا رہا ہے۔

پنجاب کے سابق وزیر صحت اور پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے صدر پروفیسر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس بڑھتی ہوئی آبادی اور غیر متعدی بیماریوں کے بعد پاکستان کے لیے تیسرا بڑا مسئلہ بن چکا ہے، جس کی بنیادی وجہ ان ادویات کا ٹافیوں کی طرح استعمال کیا جانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات بھی زہر ہی کی طرح ہیں، جس طرح لوگ ازخود کینسر کی ادویات استعمال نہیں کرتے اسی طریقے سے انہیں اینٹی بائیوٹک ادویات بھی بغیر طبی مشورے کے استعمال نہیں کرنی چاہیئں۔

پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر ایکس ڈی آر ٹائیفائڈ، ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹی بی سمیت نمونیا اور ڈائریا ایسی بیماریاں ہیں جن پر اب تھرڈ اور فورتھ جنریشن اینٹی بائیوٹک ادویات کا اثر نہیں ہو رہا۔

قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد کی فوکل پرسن ڈاکٹر آفرینش عامر نے اس موقع پر بتایا کہ پاکستان میں پچھلے سال 126 ارب روپے کی اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جانوروں اور پولٹری میں بھی اینٹی بائیوٹک ادویات کا بے تحاشہ استعمال کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں بیکٹیریا میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گیٹس فارما کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈاکٹر وجیہہ جاوید نے بتایا کہ اینٹی بائیوٹک کے بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ ملک میں بننے والی غیر معیاری ادویات بھی اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس کا سبب بن سکتی ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ ان کی کمپنی وفاقی وزارت صحت اور قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد کے ساتھ مل کر اینٹی مائیکروبیل اسسٹنس کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان پر کام کر رہی ہے۔

اس موقع پر گیٹس فارما اور پاکستان کی 13 میڈیکل سوسائٹیز، وفاقی وزارت صحت، قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد اور ہیلتھ سروسز اکیڈمی میں مختلف معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے، جس کے تحت یہ ادارے مل کر اینٹی بائیوٹک ادویات کے غیر ضروری استعمال کو کم کرنے میں اشتراک کریں گے۔