برطانیہ میں گزشتہ چار دہائیوں میں پہلی بار لندن میں سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس کا پتہ چلنے کے بعد اس حوالے سے پاکستان پر شک کیا جا رہا ہے کہ شاید اس وائرس کے انگلینڈ پہنچنے کا ذریعہ پاکستان ہے۔
تاہم، اسلام آباد میں صحت کے حکام کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ میں پایا جانے والا ’ویکسین سے بننے والا وائرس‘ 22 ممالک میں موجود ہے اور مقامی طور پر پائی جانے والی قسم وائلڈ پولیو وائرس (ڈبلیو پی وی) تھی۔
برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے نوٹ کیا ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر کسی ملک سے درآمد ہوا ہے اور ایجنسی نے والدین سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچوں کو اس بیماری کے خلاف مکمل حفاظتی ٹیکے لگوائے جائیں۔
پاکستان کے پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے نیشنل کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ نے جمعرات کو ڈان کو بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ وائرس پاکستان سے آیا ہے کیونکہ برطانیہ کے حکام نے ابھی تک جینوم کی ترتیب کے نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے۔
جینوم کی ترتیب سے وائرس کی اصلیت کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ مختلف علاقوں میں پائے جانے والے نمونوں میں مختلف رائبونیوکلک ایسڈ ہوتا ہے، متعدد بار پاکستان میں رپورٹ کیے گئے کیسز کی پیدائش پڑوسی ملک افغانستان سے جینوم کی ترتیب کے دوران ہوئی تھی۔
ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ ہم وائرس کے جینیاتی نمونے لینے کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ مزید برآں، دنیا میں پولیو وائرس کی دو اقسام ہیں: ڈبلیو پی وی جو کہ پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے، اور ویکسین سے حاصل کردہ پولیو وائرس ، لندن میں ماحولیاتی نمونے وی ڈی پی وی کے پائے گئے جو کہ 22 ممالک میں موجود ہے، اس لیے جینیاتی ترتیب کی رپورٹ آنے سے پہلے پاکستان پر اس کا ذریعہ قرار دینے کا الزام نہیں لگانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ویکسین سے حاصل ہونے والی قسم نائجیریا، مصر، پاکستان، افغانستان، یمن، سوڈان، وسطی افریقہ اور دیگر کئی ممالک سے سفر کر سکتی ہے۔
وزارت قومی صحت کی خدمات کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈبلیو پی وی کی تین اقسام ہیں، دہائیوں پہلے ’ٹرائی ویلنٹ‘ نام کی ایک ویکسین استعمال کی گئی تھی کیونکہ اس میں تینوں اقسام موجود تھیں، 2016 میں دوسری قسم کے خاتمے کے بعد ڈبلیو پی وی کی پہلی اور تیسری قسم کے ساتھ ‘بائی ویلنٹ’ ویکسین متعارف کرائی گئی تھی، تاہم 2020 میں ٹائپ ٹو اچانک دوبارہ سامنے آیا جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وائرس کے دوبارہ سر اٹھانے کا امکان ہے، اس دوسری قسم کے وائرس کو وی ڈی پی وی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا سے مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
نیوز سورس ڈان نیوز