یہ نئی تحقیق یونیورسٹی آف واٹرلُو، کینیڈا میں پروفیسر ڈاکٹر سوزین ٹیاس کی قیادت میں کی گئی ہے جس میں ’’نن اسٹڈی‘‘ کہلانے والے ایک طویل اور وسیع مطالعے سے حاصل شدہ معلومات سے استفادہ کیا گیا، جس کا آغاز 1986 میں ہوا تھا۔
اس تحقیقی مطالعے میں ’’اسکول سسٹرز آف نوٹرے ڈیم‘‘ کی 678 خواتین راہبائیں بطور رضاکار شریک تھیں جن کی عمریں (مطالعے کے آغاز پر) کم از کم 75 سال تھیں۔ (2017 تک ان میں سے صرف تین سسٹرز ہی زندہ رہ گئی تھیں۔)
ڈاکٹر سوزین اور ان کے ساتھیوں نے ’’نن اسٹڈی‘‘ میں شریک، ایسی 472 سسٹرز کی طبّی معلومات کا جائزہ لیا کہ جن میں ڈیمنشیا سے پہلے کی علامت ’’ایم سی آئی‘‘ ظاہر ہوچکی تھی، یعنی ان کی یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہونے لگی تھی۔
ان کی صحت سے متعلق تقریباً 9 سالہ بعد تک کا ڈیٹا کھنگالنے پر معلوم ہوا کہ جو سسٹرز اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور جنہیں پیچیدہ انگلش گرامر پر عبور حاصل تھا، ان کی اکثریت (تقریباً 84 فیصد) میں ڈیمنشیا اپنی ابتدائی علامت سے آگے نہیں بڑھ پایا؛ جبکہ 30 فیصد سے کچھ زیادہ سسٹرز کی یادداشت اور اکتسابی صلاحیتیں جلد ہی معمول پر واپس آگئیں۔
اس کے برعکس وہ سسٹرز جو بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں اور جن میں لسانی مہارت بھی بہت واجبی سطح پر تھی، وہ چند سال بعد ہی ڈیمنشیا میں مبتلا ہوچکی تھیں۔
ریسرچ جرنل ’’نیورولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح معنوں میں حاصل کی گئی اعلیٰ تعلیم اور پوری لگن سے سیکھا گیا ہنر نہ صرف
مادّی طور پر ہمارے لیے بہتر ہیں بلکہ یہ ہمارے دماغ کو بھی مضبوط بناتے ہیں اور کئی نفسیاتی و ذہنی بیماریوں سے بھی بچاتے ہیں۔
نیوز سورس ایکسپرس نیوز