دماغی امراض میں اضافے کی اہم وجوہات کیا ہیں؟

eAwazصحت

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خوشگوار، بہتر اور طویل عمر کے لیے جتنا انسانی مجموعی صحت کا برقرار رہنا ضروری ہے اتنا ذہن سے متعلق نظر نہ آنے والی مگر تکلیف دہ ذہنی بیماریوں کی بروقت تشخیص اور اِن کا علاج بھی ناگزیر ہے۔

پوری دنیا کی ایک نیورولوجی باڈی ہے جس کا نام ’ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی‘ ہے۔ اس فیڈریشن میں 60 سے زائد ممالک کی ممبر شپ ہے، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی بھی اس فیڈریشن کی ممبر ہے۔

ڈبلیو ایچ او (WHO) کی رپورٹ میں دماغی امراض کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے فیڈریشن نے ہر سال 22 جولائی کو ’ورلڈ برین ڈے‘ منانے کا فیصلہ کیا تھا۔

عوام کو دماغی امراض سے متعلق شعور و آگاہی کے لیے ہر سال22 جولائی کو ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی کے تحت ’ورلڈ برین ڈے‘ منایا جاتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق جسم کے ساتھ ساتھ ذہن کا صحت مند ہونا اور اس کی صحت پر توجہ دینا بھی نہایت ضروری ہے، اگر دماغی امراض کی بروقت تشخیص کر لی جائے تو علاج کی کامیابی کی شرح بڑھ جاتی ہے اور بعد میں ہونے والے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

ماہرِ دماغی امراض (نیورولوجسٹ ) ڈاکٹر عبدالمالک کے مطابق دنیا بھر میں عام دماغی مرض سر درد ہے اور مائیگرین کی شر ح سب سے زیادہ ہے۔ بعدازاں فالج کی شرح زیادہ ہے۔

اسپتالوں میں موجود ڈیٹا کے مطابق ہر سال 3.5 سے 4 لاکھ لوگ فالج کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں مرگی کے مریضوں کی شرح صرف 1فیصد ہے لیکن اس کے اعداد و شمار دیہی اور شہری علاقوں میں مختلف ہیں، دیہی علاقوں میں اس کی شرح تقریباً 2 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 0.7 سے 0.5 فی صد ہے۔

اس مرض میں مبتلا 60 سے 70 فیصد افراد کے مرگی کے دورے کو کنٹرول کرلیا جاتا ہے مگر 30 سے 40 فیصد کو کنٹرول کرنا آج بھی مشکل ہے۔

ڈاکٹر عبدالمالک کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 6 سے 7 فیصد لوگ نیورولوجیکل بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جبکہ عورتوں میں سر درد، فالج اور مرگی کی شر ح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

عورتوں میں ذہنی مسائل کی شرح زیادہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟

ڈاکٹر عبدالمالک کے مطابق عورتوں میں فالج کی شرح زیادہ ہونے کی اہم وجہ زچگی کے دوران ہونے والے مسائل، ہائی بلڈ پریشر اور اسٹریس لیول زیادہ ہونا ہے۔

دماغی امراض میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟

ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی، غیر مناسب رویے، گھریلو ناچاقیاں اور نظر انداز ہونا ڈپریشن اور انزائٹی جیسے دماغی امراض میں اضافے کا باعث ہیں۔

طبی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ دماغی مرض کے نتیجے میں بعض لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس حالت میں مریض کا علاج کرنا معالج کے لیے مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ تھیراپی یا ادویات اس پر صحیح طرح اثر انداز نہیں ہو پاتیں۔

مثال کے طور پر کچھ لوگوں کو فالج کے بعد معذوری ہوجاتی ہے تو وہ اس کے سبب ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ ہماری طرزِ زندگی دماغی امراض میں اضافے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، آج کل راتوں کو دیر تک جاگنا، سادا غذا کا استعمال نہ کرنا، فیزیکل ایکٹی وٹی نہ ہونا، اکیلے میں ہر وقت موبائل استعمال کرنا اور لوگوں سے بات چیت نہ کرنا لوگوں کو ذہنی مریض بنا رہی ہیں مگر افسوس ہم ان چیزوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جبکہ ہم جانتے ہے کہ یہ کام ہماری دماغی صحت کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ سروائیکل، آنکھوں اور جوڑوں کا مسئلہ لوگوں میں عام ہوگیا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ ہم نے آرام دہ زندگی گزارنے کا تہیا کیا ہوا ہے، ایک بہتر طرز زندگی گزارنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم 24 گھنٹوں کو 3 حصوں میں تقسیم کردیں، 8 گھنٹے کام کریں، 8 گھنٹے لوگوں سے ملیں جلیں اور دیگر کاموں میں گزاریں اور 8 گھنٹے آرام کریں، اگر ہم دماغی امراض میں کمی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا پڑے گا تا کہ ایک بہتر معاشرہ تشکیل دیا جاسکے اور دماغی امراض کی شرح کو کم بھی کیا جاسکے۔

ہر ذہنی مرض کا علاج دستیاب:

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ذہنی مرض کا علاج دستیاب ہے اگر مرض کی تشخیص جلد ہو جائے تو کامیابی سے اس کا علاج کیا جاسکتا ہے۔

علاج میں تاخیر سے مرض پیچیدہ ہو جاتا ہے اور مرض کے ٹھیک ہونے کے چانسز کم ہوجاتے ہیں۔