Dangerous amounts of mercury revealed in whitening creams

سفید رنگ کرنے والی کریموں میں مرکری کی خطرناک مقدار کا انکشاف

eAwazصحت

بیلجیئم: ایک عالمی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سفید کرنے والی کریموں اور دیگر مصنوعات کی بڑی تعداد میں خطرناک حد تک مرکری کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ پارے کو "مائع چاندی” بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عام درجہ حرارت پر مائع کی شکل میں ہوتا ہے۔

مرکری کا استعمال سینکڑوں مصنوعات اور آلات میں ہوتا ہے، تھرمامیٹر سے لے کر دندان سازی تک، اور برقی آلات سے لے کر کاسمیٹکس تک۔

لیکن بین الاقوامی قانون کے تحت ہر شعبے میں مرکری کے استعمال کی محفوظ حدود ہیں۔
کاسمیٹک مصنوعات میں پارے کی "محفوظ مقدار” ایک حصہ فی ملین (1 پی پی ایم) یا اس سے کم ہے۔ لیکن 17 ممالک میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سفید کرنے والی مصنوعات میں سے 48 فیصد میں محفوظ سطح سے کہیں زیادہ مرکری ہوتا ہے۔
ایمیزون
مصنوعات دنیا کے تقریباً تمام بڑے ای کامرس پلیٹ فارمز پر دستیاب ہیں، بشمول ایمیزون ،ای بے اور امریکہ سے آسٹریلیا تک 100 سے زیادہ ممالک میں خریدے جا رہے ہیں۔

یہ تحقیقی رپورٹ مختلف ممالک کی این جی اوز کے ساتھ مل کر مرکری کی آلودگی پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم زیرو مرکری ورکنگ گروپ نے شائع کی۔

تحقیق کے لیے 40 ای کامرس پلیٹ فارمز سے 271 بلیچنگ پروڈکٹس خریدے گئے جن میں ایمیزون، ای بے اور علی ایکسپریس شامل ہیں اور ان کا الگ الگ تجزیہ کیا گیا۔

تجزیہ سے پتہ چلا کہ ان میں سے 129 مصنوعات میں پارے کی سطح 1 پی پی ایم کی محفوظ حد سے کافی زیادہ تھی۔

رپورٹ میں ایک اور تشویشناک انکشاف یہ ہے کہ 43 فیصد ہائی مرکری مصنوعات یا تو پاکستان میں تیار ہوتی ہیں یا پاکستان میں پیک کی جاتی ہیں۔

ان میں کچھ مشہور پاکستانی کریموں اور دیگر متعلقہ مصنوعات کے نام بھی شامل ہیں جو رنگت کو سفید کرتی ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان بلیچنگ پروڈکٹس میں مرکری کا مواد محفوظ حد سے ہزاروں گنا زیادہ دیکھا گیا ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ مصنوعات درجنوں ممالک میں ای کامرس پلیٹ فارمز کے ذریعے بھی بلاتعطل دستیاب ہیں۔