دنیا بھر میں بہت سی خواتین اس بارے میں فکر مند ہیں کہ مانع حمل کی گولیاں ان کی ذہنی صحت کو کس طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ کیا خواتین کی گولیوں سے وابستہ اس طرح کے خوف کا کوئی ثبوت ہے؟
پاکستان میں مختلف قسم کی مانع حمل ادویات دستیاب ہیں، لیکن عائشہ شاہ کے لیے یہ ادویات مدد کے بجائے نئی پریشانی لے کر آئیں۔ وہ کہتی ہیں: "اوپر تلے دو بچے پیدا ہونے کے بعد میں نے مانع حمل دواؤں کا رخ کیا۔ پہلے انجیکشن لگوائے تو اس سے ماہواری رک گئی، وزن بڑھنے لگا اور چہرے پر چھائیاں پڑ گئیں۔”
انھوں نے بتایا: "بے چینی اور اضطراب بڑھنے لگا تو میں انجیکشن سے گولیوں پر منتقل ہوگئی لیکن نتائج قریباً ایک جیسے تھے۔ سینے میں جلن کی وجہ سے نیند بہت متاثر ہوتی تھی۔۔۔ وزن بڑھنے سے کمر میں درد شروع ہو گیا تھا اور چلنے پھرنے میں مشکل ہوتی تھی۔۔۔ ٹانگوں اور پاؤں میں درد رہتا تھا۔”
"ایک پریشانی سے نکلی تو نئے ڈپریشن نے گھیر لیا۔ اور تو اور آئینہ دیکھنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ مزاج میں چڑچڑاپن آ گیا تھا۔ پھر میں نے گولیاں بند کر دیں۔”