موبائل فون سے مستقل طور پر، خطرناک شعاعیں (ریڈی ایشن) نکلتی رہتی ہیں۔ یہ شعاعیں بڑوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں، مگر بچوں خاص کر پانچ برس سے کم عمر کے بچوں پر بہت زیادہ منفی اثرات ڈالتی ہیں۔
جو بچے دن میں کئی کئی گھنٹے موبائل فون لیے رہتے ہیں، وہ جب کان پر یہ موبائل لگاتے ہیں تو تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس عمل سے کان پر رسولی نمودار ہوسکتی ہے، خاص کر کان اور دماغ کے درمیانی حصے میں رسولی بننے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
موبائل فون میں الیکٹرو میگنیٹک ویوز یعنی برقناطیسی لہروں کا استعمال ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کی بھی اپنی برقی رو ہوتی ہے جس کی مدد سے اعصابی نیٹ ورک ایک پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، بچوں کے اعضا اور اندرونی نظام زیادہ پختہ اور قوی نہیں ہوتے، اس لیے جب بچہ موبائل فون استعمال کرتا ہے تو اس کا اعصابی ابلاغ فوراً اور شدید متاثر ہوتا ہے۔ ماہرین نے یہ مشاہدہ کیا کہ ایک بچہ اگر محض دو منٹ بھی فون پر بات کرے تو اس کے دماغ کی یہ سرگرمی بدل جاتی ہے۔ اس اعصابی تبدیلی کی وجہ سے بچے کے مزاج میں چڑچڑا پن آتا ہے، برتاؤ میں اتار چڑھاؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، اور توجہ کی اہلیت بہت کم ہو جاتی ہے۔
موبائل فون کے استعمال سے سب سے خطرناک مسائل، نفسیاتی مسائل ہیں۔ یہ مسائل اس لیے بھی سب سے خطرناک ہیں کہ یہ ابتدا میں اتنے خفیف ہوتے ہیں کہ والدین ان پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ اکثر یہی سمجھ لیا جاتا ہے کہ بچے کی طبیعت ناساز ہے، کچھ دن میں ٹھیک ہوجائے گا لیکن بچہ تو نفسیاتی طور پر بہت زیادہ بیماری کا شکار ہوچکا ہوتا ہے۔
موبائل فون پر کھیل کھیلنے سےperipheral vision (سر کو گھمائے بغیر ادھر ادھر دیکھنے کی صلاحیت) بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے اگرچہ ایک مخصوص جانب دیکھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے، مگر central vision کمزور ہوتی ہے۔ اس وجہ سے آنکھوں کے کام کا توازن بگڑ جاتا ہے اور بینائی کے کئی مسائل کا خدشہ رہتا ہے۔
۱یسے بچے سوشل میڈیا پر رہنے کی وجہ سے اپنے دوستوں اور رشتے داروں وغیرہ سے کم ملتے ہیں۔ لہٰذا، رفتہ رفتہ وہ پہلے سوشل اینزائٹی اور پھر تنہائی (loneliness) کے مریض بن جاتے ہیں۔ تنہائی آدمی کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روکتی ہے، بلکہ یہی اگر زیادہ بڑھ جائے تو شدید ڈپریشن اور پھر خودکشی کی محرک بن سکتی ہے۔