آسٹریلیا: پوری دنیا حافظے کی کمزوری، ڈیمنشیا اور الزائیمر کی گرفت میں آتی جا رہی ہے۔ تاہم حفاظتی طب کے تحت عام افراد اپنی غذا میں میگنیشیئم بڑھا کر اس خطرے سے بچ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں بالخصوص خواتین کو زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔
میگنیشیئم کھانے سے ایک جانب دماغ تندرست رہتا ہے تو دوسری جانب اس میں انحطاطی امراض (نیوروڈی جنریشن) کیفیات کو گویا بریک لگ سکتا ہے۔ اس ضمن میں آسٹریلیئن نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک طویل سروے کیا ہے جس میں میگنیشیئم کھانے والوں کے دماغی حجم اور سفید مادے (وائٹ میٹر) کی بہتات کو نوٹ کیا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ میگنیشیئم بڑھانے سےخود بلڈ پریشر قابو میں رکھنے پر بھی مدد ملتی ہے لیکن ماہرین کو ان دونوں کی سائنسی وجوہ جاننے کی ضرورت ہے۔
برطانوی بایوبینک سے سائنسدانوں نے 40 سے 73 برس تک کے 6000 افراد کا ڈیٹا لیا ہے۔ ابتدا میں ایک مریض بھی دماغی مرض کا شکار نہ تھا۔ تمام شرکا کو 16 ماہ کے دوران 5 مرتبہ سوالنامہ بھرنے کو دیا گیا اور 200 کھانوں کی فہرست پیش کی جن میں میگنیشیئم پایا جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ جن افراد نے میگنیشیئم کی نارمل مقدار 350 ملی گرام روزانہ کی بجائے 550 ملی گرام کھائی ان کے دماغ کی عمر ایک برس کم ہوگئی اور وہ زیادہ توانا اور جوان نمودار ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ میگنیشیئم کھانے سے دماغ کے مختلف گوشے بھی بہتر ہوتے ہیں جن میں بھورا مادہ (گرے میٹر) اور ہیپوکیمپس شامل ہے۔
ماہرین نے شریک افراد کے ایکسرے اور ایم آرآئی ٹیسٹ بھی لیے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر باقاعدگی سے میگنیشیئم کی زائد مقدار کھائی جائے تو اس سے عمرکے ساتھ ساتھ دماغ سکڑنے کا خطرہ 41 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ اثرات خواتین پر زیادہ دیکھے گئے ہیں۔
یہ تحقیق خولہ العتیق اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے جن کا تعلق اسٹریلیا نیشنل یونیورسٹی سے ہے-