پاکستان سمیت دنیا بھر میں 21 ستمبر کو الزائمرز سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔
الزائمرزکے عالمی دن کے حوالے سے نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فاونڈیشن کے زیراہتمام ایک روزہ آگہی سیمینار منعقد کیا گیا۔
معروف ماہرین اعصابی امراض پروفیسر اقبال آفریدی،پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع، پروفیسر ڈاکٹر اعجاز وہرہ، ڈاکٹر شاہد مصطفیٰ،پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک اور ڈاکٹر واجد جواد نے اس دن کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حافظے کی کمزوری (الزائمرز) کو بڑھاپے کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک دماغی اور زندگی کو کم کرنے والا مرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں تقریباً 5لا کھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت اس بیماری سے لاعلم ہے۔ اس کی ابتدائی علامات میں حافظہ کی کمزوری، یادداشت کی کمی اور روز مرہ کی سرگرمیو ں کو بھول جانا شامل ہے ۔جب مرض بڑھتا ہے تو مریض کھانا کھانا، کپڑے پہننا اور گھرکے پتے سمیت اپنے بچوں اورقریبی عزیزواقارب تک کوبھولنا شروع ہو جاتا ہے۔
اس کی کیفیت چھوٹےبچے کی سی ہو جاتی ہے، جسے کسی بات کا علم نہیں ہوتا ۔ایسی صورتحال میں مریضوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈیمینشیا کی تاحال کوئی وجہ معلوم نہیں کی جاسکی۔عموماً 60سال کی عمر کے بعد دماغ کے کچھ نیورون ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس سے دماغ کے وہ حصے متاثر ہوتے ہیں جن کا تعلق حافظے اور سوشل فنکشن سے ہوتا ہے نتیجتاً انسان حساب کتاب اور سوچ بچارنہیں کر سکتا اور چیزوں کو بھولنا شروع ہو جاتا ہے ۔
ماہرین دماغی و اعصابی امراض نے کہاکہ الزائمرزکے لاحق ہونے کا کوئی معروف سبب ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا لیکن وٹامن بی 12کی کمی، بلند فشار خون، شوگر، نیند کی کمی اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔
انہوں نےکہاکہ پاکستان میں 60 سال سے زائد عمر کے 10 فیصد افراد کو یہ بیماری لاحق ہے یہ بیماری بہت تیزی سے بڑھتی ہے اس لیے ابتدا میں اس کی تشخیص بہت ضروری ہے۔ اگرچہ اس بیماری کو ختم نہیں کیا جاسکتا تاہم تشخیص کے بعد اس کی پیچیدگیوں اور رفتار کو کم کیا جاسکتاہے ۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں عوام میں آگہی بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ،اگرگھر کے بزرگوں میں اس طرح کی علامتیں پائی جائیں تو اسے بڑھاپا سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے، پاکستان میں اس کا علاج اور تمام دوائیں دستیاب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو افراد زیادہ سوچ بچار، دماغ کے زیادہ استعمال اور ورزش سمیت صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کرتے ہیں انہیں اس بیماری میں مبتلا ہونے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے روزمرہ کے معاملات بھی صحت مند سرگرمیوں سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں جس کہ وجہ سے دن بدن امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔