پاکستان میں موجود کروڑوں ‘پری ڈائیبیٹک’ شہریوں کو ذیابطیس سے بچانے کے لیے ذیابطیس سے بچاؤ کا قومی پروگرام شروع کر دیا گیا ہے۔
مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب بتایا گیا کہ ذیابطیس سے بچاؤ کے قومی پروگرام کے تحت پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور نجی اداروں کے تعاون سے ملک بھر میں آگاہی مہم چلائے گی جب کہ ایک سالہ پروگرام کے تحت ہزاروں لوگوں کو ایک تحقیق کا حصہ بھی بنایا جائے گا تاکہ انہیں ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہونے سے بچا کر دوسروں کے لیے مثال بنا کر پیش کیا جا سکے۔
اس موقع پر ذیابطیس کے ساتھ ساتھ تھائیرائیڈ گلینڈز کی بیماریوں کے حوالے سے بھی آگاہی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ پاکستان میں عوام کی ایک بڑی تعداد ان بیماریوں کے حوالے سے آگاہی نہیں رکھتی۔
پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ابرار احمد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ان تمام مریضوں کا علاج کرنا ممکن نہیں، اس وقت پاکستان میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں شوگر کا مرض لاحق ہے لیکن انہیں اس کے متعلق علم ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ شوگر کے مرض سے بچاؤ اور کنٹرول کرنے کے لیے آگاہی مہم چلائی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت نجی اداروں اور سول سوسائٹی کو اس مرض پر قابو پانے کے لیے پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کا ساتھ دینا چاہیے۔
ڈاکٹر ابرار احمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے ذیابطیس سے بچاؤ کا قومی پروگرام شروع کر دیا ہے لیکن اس کا رزلٹ آنے میں کافی وقت لگے گا۔
انہوں نے اس موقع پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے اپیل کی کہ ذیابطیس سے بچاؤ کے پیغام کو پرائم ٹائم میں اجاگر کیا جائے تاکہ لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا ہو سکے۔
امور ماہر امراض ذیابطیس اور پاکستان اینڈوکرائین سوسائٹی کے بانی رکن پروفیسر عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان میں شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2045 تک شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 6 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر کے مرض سے بچاؤ کے لیے بچوں اور نوجوانوں میں آگاہی پیدا کرنی ہوگی، مصنوعی میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھا کر انہیں عوام کی پہنچ سے دور کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسکینڈینیوئن ممالک کی طرح ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا، وقت آ گیا ہے کہ اب ہم گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سفر کے بجائے پیدل چلنے پر دھیان دیں اور قومی سطح پر اپنی خوراک کی عادتیں یکسر تبدیل کرلیں۔