محکمہ صحت سندھ کے حکام نے کراچی میں نیگلیریا وائرس (جسے عام طور پر دماغ کھانے والا امیبا کہا جاتا ہے) کے سبب ایک ہفتے کے قلیل عرصے میں دوسری موت کی اطلاع دی ہے، رواں برس اس مہلک انفیکشن سے مرنے والوں کی تعداد 10 ہوگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ نیگلیریا کے سبب ایک ہفتے کے اندر دوسری ہلاکت نارتھ کراچی میں ہوئی ہے۔
اس وائرس کا تازہ ترین شکار ایک 22 سالہ طالب علم بنا، 24 اکتوبر کو اسی علاقے سے ایک 45 سالہ دکاندار اس مہلک انفیکشن کا شکار بن گیا تھا۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق طالب علم نے 25 اکتوبر کو تیز بخار، سر درد اور قے کی شکایت کی تھی۔
محکمہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ بعد ازاں اس طالبعلم کی حالت بگڑ گئی تھی، 2 روز بعد خاندان والے انہیں ایک نجی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخل کروانے پر مجبور ہوگئے، طالبعلم کا نیگلیریا ٹیسٹ مثبت آیا اور 29 اکتوبر کو بالآخر وہ انتقال کر گیا۔
انہوں نے بتایا کہ وائرس کا تازہ شکار بننے والے دونوں افراد نے تیراکی نہیں کی تھی لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہیں اس انفیکشن نے ناک کے راستے متاثر کیا ہو گا۔
بعد ازاں محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاندان کے اصرار پر ٹاؤن سرویلنس کوآرڈینیٹر کو علاقے سے پانی کے نمونے جمع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ پانی میں مہلک وائرس کی موجودگی کا پتا لگایا جا سکے۔
رابطہ کرنے پر ہیلتھ سروسز کراچی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالحمید جمانی نے انفرادی اور کمیونٹی کی سطح پر احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت یا واٹر بورڈ تنہا اس وائرس کے پھیلاؤ کو نہیں روک سکتے جب تک کہ عوام اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول نہ کریں۔
ان کے مطابق محکمہ صحت نیگلیریا کے سبب موت کی اطلاع ملتے ہی اُس علاقے سے پانی کے نمونے جمع کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیب کا پورا ڈیٹا میرے سامنے نہیں ہے لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس سال متاثرہ علاقوں (جہاں اموات کی اطلاع ملی تھی) سے لیے گئے کئی نمونے نیگلیریا ٹیسٹ میں مثبت پائے گئے ہیں۔
’دماغ کھانے والے امیبا‘ کے نام سے مشہور نیگلیریا وائرس ’پرائمری امیبک میننگوئنسفلائٹس‘ نامی بیماری کا سبب بنتا ہے، 98 فیصد کیسز میں یہ انفیکشن جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق 2012 سے کراچی میں نیگلیریا وائرس کے 100 سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں، ان میں سے صرف ایک مریض 3 ماہ تک زندہ رہا، رواں برس رپورٹ ہونے والے ایک اور کیس میں متاثرہ مریض صحت یاب ہو گیا اور اب بھی زندہ ہے۔