گابا نامی کیمیائی جزو بچوں میں سیکھنے کی بھرپور صلاحیت کا ذمے دار قرار

eAwazصحت

نیویارک: بالغ افراد کے مقابلے میں بچے بہت تیزی سے بہت ساری باتیں سیکھتے ہیں جن میں زبان بولنے سے لے کر دیگر امور شامل ہوتے ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ دماغ میں گابا نامی کیمیائی جزو اس کی اہم وجہ ہوتا ہے۔

لگاتار تجربات کے باوجود بچوں کا دماغ ایک بڑے فوم کی طرح معلومات کو نہ صرف جذب کرتا ہے بلکہ وہ طویل عرصے تک ان کے حافظے اور عمل میں بھی محفوظ رہتی ہیں۔ جرمنی میں جامعہ ریجنسبرگ اور براؤن یونیورسٹی کے نیوروسائنسداں کے مطابق گیما امائنوبیوٹرک ایسڈ یا گابا نامی کیمیکل بچوں کے اکتسابی عمل میں بہت سرگرم ہوجاتا ہے اور وہ بڑے پیمانے پر معلومات و تجربات جذب کرسکتے ہیں۔

اس کے لیے ماہرین نے ایک جدید ٹیکنالوجی استعمال کی ہے جسے فنکشنل ایم آر ایس (ایف ایم آر ایس) کا نام دیا گیا ہے۔ بچوں کو اسکرین پر معلومات دکھائی گئیں اور اس دوران ایف ایم آر ایس نے دماغی قشر (وژول کارٹیکس) میں سرگرمی کو نوٹ کیا کہ آیا یہ بڑوں کے مقابلے میں زیادہ ہوسکتی ہے یا کم ہوتی ہے۔

موازنے کے تجربے میں 8 تا 11 برس کے 55 بچے اور 18 تا 35 برس کے 56 بالغ افراد شامل کیے گئے تھے۔ مختلف اوقات میں بچوں اور بڑوں کے دماغ کا جائزہ لیا گیا۔ پورے تجربے میں بڑوں کے دماغ میں گابا کی سطح یکساں رہی لیکن بچوں میں سیکھنے اور پڑھائی کے دوران گابا کی سرگرمی بھی بڑھی یہاں تک کہ سیکھنے کے عمل کے بعد بھی گابا کیمیکل بڑھا ہوا دیکھا گیا۔

گابا ایک اہم کیمیائی جزو ہے جو نئی اشیا اور معلومات سیکھنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اس کےعلاوہ دماغ میں معلومات کے طویل حافظے میں بھی یہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے بعد سائنسدانوں کی اسی ٹیم نے بچوں اور بڑوں میں رویہ جاتی اکتساب کی مشقیں بھی کرائیں جس سے معلوم ہوا کہ نئی معلومات سیکھنے کے بعد بچے تھکے نہیں اور اگلے دس منٹ بعد وہ سیکھنے اور پڑھنے کے عمل میں دوبارہ نئے عزم کے ساتھ موجود تھے۔

یہی وجہ ہے کہ بچے بہت تیزی سے سیکھتے ہیں اور معلومات کی بڑی مقدار اپنے دماغ میں سمونے کوشش کرتے ہیں۔