گردوں کے تکلیف دہ دائمی امراض سے بچنا چاہتے ہیں تو ہر ہفتے کچھ مقدار میں مچھلی کھانا عادت بنالیں۔
یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
جارج انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اور نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہفتے میں 2 بار چربی والی مچھلی کھانے سے گردوں کے دائمی امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ اس عضو کے افعال بھی عمر گزرنے کے ساتھ متاثر نہیں ہوتے۔
ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں 70 کروڑ کے قریب افراد گردوں کے دائمی امراض کے شکار ہیں۔
ان امراض سے کڈنی فیلیئر اور موت کا خطرہ بڑھتا ہے اور اکثر ان کا علم بھی کافی تاخیر سے ہوتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مچھلیوں میں پائے جانے والے اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کے زیادہ استعمال سے گردوں کے مسائل کا خطرہ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
تحقیق کے دوران پھلوں یا سبزیوں میں موجود اومیگا 3 فیٹی ایسڈز سے گردوں کے امراض کے خطرے میں کمی کو دریافت نہیں کیا جاسکا۔
محققین نے کہا کہ اگرچہ ہم حتمی طور پر نہیں بتاسکتے کہ کونسی اقسام کی مچھلیاں کھانے سے گردوں کے امراض سے بچنے میں زیادہ مدد ملتی ہے مگر ہم نے دریافت کیا کہ خون میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کی زیادہ مقدار گردوں کے جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیٹی ایسڈز ٹھنڈے پانیوں میں پائے جانے والی مچھلیوں میں زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو پہلے ہی یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ ہفتے میں 2 بار چربی والی مچھلی کھانا صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔
اس سے قبل جانوروں پر ہونے والے تحقیقی کام میں معلوم ہوا تھا کہ اومیگا 3 فیٹی ایسڈز سے گردوں کے افعال بہتر ہوسکتے ہیں مگر انسانوں پر اس حوالے سے زیادہ کام نہیں ہوا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ محققین نے اس تحقیق میں انسانوں پر اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کے اثرات کی جانچ پڑتال کی۔
محققین نے 12 ممالک میں ہونے والی 19 تحقیقی رپورٹس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد دریافت کیا کہ خون میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کی زیادہ مقدار گردوں کے دائمی امراض کا خطرہ کم کرتی ہے۔
تحقیق میں عمر، جنس، جسمانی وزن، تمباکو نوشی، الکحل کے استعمال، جسمانی سرگرمیوں اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ مچھلی زیادہ کھانے سے گردوں کے دائمی امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ 8 سے 13 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح گردوں کے افعال میں تنزلی کی رفتار بھی سست ہوجاتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل بی ایم جے میں شائع ہوئے۔