2 برس کے دوران 6 لاکھ 11 ہزار پاکستانی تپِ دق کا شکار ہوئے

eAwazصحت

پاکستان میں گزشتہ 2 برس کے دوران 6 لاکھ 11 ہزار افراد تپِ دق کا شکار ہوئے جبکہ 48 ہزار ایچ آئی وی منفی اور 21 سو ایچ آئی وی مثبت افراد تپِ دق کے سبب انتقال کر گئے لیکن صرف 55 فیصد کیسز ہی رپورٹ ہوسکے۔

رپورٹ کے مطابق یہ بات ’اسٹاپ ٹی بی پاکستان‘ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر شرف علی شاہ نے ایک سیمینار کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

اس حوالے سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق تقریب کا اہتمام اسٹاپ ٹی بی پارٹنرشپ پاکستان نے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) اور فائزر پاکستان کے اشتراک سے کیا تھا۔

تپِ دق کے کم کیسز رپورٹ ہونے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شرف علی شاہ نے کہا کہ تپ دق اور اس کی علامات کے بارے میں کج فہمی (آگاہی کی کمی)، علاج کہاں سے کرایا جائے اس بارے میں ناقص معلومات اور سرکاری صحت کی سہولیات پر انسداد تپِ دق ادویات کی دستیابی سے متعلق غلط فہمی، نقل و حمل کی لاگت اور یومیہ اجرت کا نقصان کچھ اہم عوامل ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر سال اسٹاپ ٹی بی پارٹنرشپ اور اس کے شراکت تپِ دق کے صحت، سماجی اور معاشی طور پر تباہ کن اثرات کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں اور اس وبا کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ایچ آئی وی ٹی بی کے مشترکہ انفیکشن پر روشنی ڈالتے ہوئے، ڈاکٹر افشاں عیسانی، صوبائی ٹی بی ایڈوائزر سی ڈی سی سندھ نے کہا کہ تپ دق اور ایچ آئی وی، دونوں انفیکشن ایک دوسرے کو سہولت دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد میں تپِ دق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور دونوں بیماریوں کا اکٹھا علاج زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی کے نئے کیسز کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے، سال 2022 کے دوران ملک میں ایچ آئی وی کے تقریباً 30 ہزار نئے کیسز رجسٹر کیے گئے۔

ڈاکٹر سلیم کاظمی، سینئر ٹیکنیکل ایڈوائزر سی ڈی سی نے کہا کہ عالمی سطح پر تپِ دق کے خاتمے کی حکمت عملی کو نافذ کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جا رہا ہے، کچھ حالیہ پیش رفتوں میں حساس تپِ دق کے علاج کی مدت کو بعض صورتوں میں 4 ماہ تک اور منشیات کے خلاف مزاحم ٹی بی کے لیے 6 ماہ تک کم کرنا شامل ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ کثیر الادویاتی مزاحم تپِ دق اس وقت بڑھتی ہے جب مریض کورس مکمل کیے بغیر ادویات لینا چھوڑ دیتے ہیں، یوں وائرس اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ علاج کی لاگت 10 گنا بڑھ جاتی ہے۔