اسٹینفرڈ: اسٹینفرڈ میڈیسن کے سائنسدانوں نے سروے، اکتسابی ٹیسٹ اور دماغی عکس نگاری (امیجنگ) کی بدولت یاسیت (ڈپریشن) کی ایک بالکل نئی ذیلی قسم دریافت کی ہے۔ ماہرین نے اسے ’کوگنیٹووبایوٹائپ‘ کا نام دیا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ 27 فیصد ڈپریشن کے مریض اس کیفیت کے شکار ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ الگ ہونے کی بنا پر اس کے علاج میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔
ایسے مریض ڈپریشن کی بدولت آگے کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتے، سیلف کنٹرول میں رکاوٹ محسوس کرتے ہیں، ان کا رویہ بدلا بدلا ہوجاتا ہے اور وہ کسی کام پرارتکاز (فوکس) نہیں کرپاتے۔ اس ڈپریشن کا اثردماغ کے دونوں حصوں یعنی دائیں اور بائیں نصف کرے پر ہوتا ہے۔
روایتی ڈپریشن میں مریض کا موڈ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ طبیب حضرات اس کے لیے سیروٹونِن والی ادویہ یا ایس ایس آرآئی دیتے ہیں۔ لیکن نئی قسم کی ڈپریشن کے مریضوں پراس کا اثر کم کم ہوتا ہے۔ توقع ہے کہ اب مرض کی تشخیص کے بعد مناسب دوا دے کر ان مریضوں کو دوبارہ نارمل بنانے میں مدد مل سکے گی۔
یہ تحقیق 15 جون کو جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) کے تحقیقی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ تاہم اس کی تلاش کے لیے کوشش اور خطا (ٹرائل اینڈ ایرر) کا طریقہ کار ہی استعمال کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمریض کی دوا ڈپریشن کے ہرمریض پرنہیں آزمائی جاسکتی۔
اس مطالعے میں لگ بھگ 1008 ایسےمریضوں کو لیا گیا جو شدید ڈپریشن کے شکار تھے اور ان پر دوا بے اثر تھی۔ ان کے کئی طرح کے ٹیسٹ لیے گئے، دماغ کی ایم آرآئی اسکیننگ بھی کی گئی اور روزمرہ کام کے ٹیسٹ سے بھی گزارا گیا۔ کئی ہفتوں تک انہیں دوا بدل بدل کی دی گئی لیکن 27 فیصد مریض کسی بھی طرح ٹھیک نہ ہوسکے اور علامات برقرار رہیں۔
ان مریضوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تو ان میں ڈپریشن کی نئی ذیلی قسم کا انکشاف ہوا۔ توقع ہے کہ اس دریافت سے ایسے مریضوں کو شفا دینے میں مدد مل سکے گی۔