اے آئی ٹیکنالوجی کے اثرات دکھانے والی وہ حیرت انگیز فلم جو آپ کو دنگ کر دے گی

eAwazفن فنکار

اے آئی ٹیکنالوجی کے اثرات دکھانے والی وہ حیرت انگیز فلم جو آپ کو دنگ کر دے گی

موجودہ عہد میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کافی تیزی سے پیشرفت کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے حوالے سے خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

مگر کیا ااپ کو معلوم ہے کہ 5 دہائیوں سے زائد عرصے قبل ایک فلم میں اے آئی ٹیکنالوجی کے بارے میں جو دکھایا گیا تھا وہی اب بھی لوگوں کے خدشات کا باعث بن رہا ہے؟

جی ہاں 1968 میں ڈائریکٹر اسٹینلے کیوبرک کی فلم 2001 : اے اسپیس اوڈیسی ریلیز ہوئی تھی جس میں ہال 9000 نامی سپر کمپیوٹر کو دکھایا گیا تھا۔

یہ سپر کمپیوٹر ایک خلائی جہاز کو چلانے کے ساتھ ساتھ دیگر متعلقہ کام کرتا تھا۔

یہ فلم اب بھی ہر دور کی بہترین فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔

یہ فلم مشتری کی جانب بھیجے جانے والے ایک خلائی مشن کے گرد گھومتی ہے جس کے لیے ڈسکوری ون نامی اسپیس شپ استعمال کیا جاتا ہے۔

اس اسپیس شپ میں ہال 9000 سپر کمپیوٹر نصب ہوتا ہے جو اس خلائی جہاز کے بیشتر آپریشنز کو کنٹرول کرتا ہے۔

یہ سپر کمپیوٹر ایک انسانی شخصیت جیسا ہوتا ہے اور جب اس کی جانب سے ایک ناکامی کو رپورٹ کیا جاتا ہے تو جہاز پر موجود سائنسدان کوئی خرابی دریافت نہیں کرتے۔

جس پر کمپیوٹر کی جانب سے ڈیوائس کو دوبارہ انسٹال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ مسئلے کی شناخت ہو سکے اور اس کی جانب سے اصرار کیا جاتا ہے کہ یہ خرابی انسانی غلطی کا نتیجہ ہے۔

کمپیوٹر کے رویے سے پریشان سائنسدان ایک پوڈ میں داخل ہوکر بات کرتے ہیں مگر وہ ان کے ہونٹوں کی جنبش سے سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔

اس کے بعد وہ جہاز پر سوار افراد کو مارنے لگتا ہے، مگر ایک فرد بچ جاتا ہے اور کمپیوٹر کو ناکارہ بنانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔

ایسا کیسے ممکن ہوتا ہے اور مشن کے دوران کیا کچھ ہوتا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے اور آپ کو دنگ کر دے گا۔

اس فلم کو دیکھتے ہوئے یقین کرنا مشکل ہوگا کہ یہ 1970 کی دہائی میں بنی ہے کیونکہ اس کی کہانی موجودہ عہد سے بھی کافی مطابقت رکھتی ہے جبکہ ویژول ایفیکٹس بھی کمال کے ہیں اور اس شعبے میں اس نے آسکر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

اس فلم کے چند پس پردہ حقائق بھی کافی دلچسپ ہیں۔

فلم کی کہانی ایک ناول پر مبنی تھی جس کو فلم کی تیاری کے دوران ہی تحریر کیا گیا
ڈائریکٹر اسٹینلے کیوبرک نے 1964 میں خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی نئی فلم خلائی زندگی پر بنانا چاہتے ہیں جس پر ان کے ایک دوست نے سائنس فکشن رائٹر آرتھر سی کلارک سے رابطے کا مشورہ دیا۔

اس طرح دونوں کی ملاقات ہوئی اور رائٹر کی ایک مختصر کہانی The Sentinel کو فلم کے لیے منتخب کیا گیا اور اسی پر آرتھر سی کلارک نے ناول بھی تحریر کیا جو فلم کے ساتھ ہی 1968 میں شائع ہوا۔

فلم کی ایلین انشورنس پالیسی کے حصول کی کوشش
ڈائریکٹر کا ماننا تھا کہ زمین سے باہر بھی زندگی کا وجود موجود ہے اور انہیں ڈر تھا کہ ان کی فلم کے ریلیز ہونے سے قبل ایلینز کو دریافت نہ کرلیا جائے۔

تو اپنی فلم کو اس دریافت سے ہونے والے نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے ایک انشورنس کمپنی سے انشورنس پالیسی کے حصول کی کوشش کی مگر کمپنی نے انکار کر دیا۔

فلم کی لگ بھگ مکمل شوٹنگ چار دیواری میں کی گئی
فلم یں کافی آؤٹ ڈور مناظر دکھائے گئے تھے مگر حقیقت میں وہ سب اسٹوڈیوز کے اندر شوٹ کیے گئے تھے۔

اس مقصد کے لیے 30 ٹن وزن کا گھومنے والا فیریز وہیل سیٹ تیار کیا گیا تھا جس میں خلائی جہاز کی کشش شکل کو دکھایا گیا۔

اسی طرح دیگر مناظر بھی سیٹ کے اندر تیار کیے گئے۔

ناسا کے ماہرین نے بھی مدد فراہم کی
اگرچہ فلم میں سائنس فکشن کہانی کو دکھایا گیا مگر ڈائریکٹر سائنسی حقائق کو درست دکھانا چاہتے تھے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے ایسے افراد کی خدمات حاصل کیں جو ناسا میں کام کر چکے تھے۔

اسٹینلے کیوبرک کا واحد آسکر
ڈائریکٹر نے اپنے کیرئیر کے دوران متعدد بہترین فلمیں تیار کیں مگر وہ صرف ایک آسکر ایوارڈ جیت سکے اور وہ 2001 : اے اسپیس اوڈیسی کے ویژول ایفیکٹس کا تھا۔

شروع اور آخر میں ڈائیلاگز نہیں تھے
اس فلم کے اولین 25 منٹ جبکہ اختتامی 23 منٹ تک ایک ڈائیلاگ بھی نہیں بولا گیا۔

فلم میں مستقبل کی ٹیکنالوجیز کی درست پیشگوئیاں کی گئیں تھیں

ویڈیو چیٹنگ ایپس کا پہلی دفعہ تصور اسی فلم میں پیش کیا گیا تھا جس میں سائنسدان مشن کے دوران اپنے خاندان سے رابطے کے لیے ویڈیو فون استعمال کرتا ہے۔

اسی طرح پرواز کے دوران پرسنل ٹیلی ویژن کا خیال بھی اسی فلم میں پیش کیا گیا۔

فلم میں ٹیبلیٹ جیسی ڈیوائسز کو بھی استعمال کرتے دکھایا گیا جو موجودہ عہد کے ٹیبلیٹس سے کافی ملتی جلتی تھیں۔