پاکستان اور سعودی عرب جو کبھی امریکا کے اہم اتحادی سمجھے جاتے تھے، امریکا کی قومی سلامتی کی حکمت عملی 2022 میں بھی ان ذکر نہیں کیا گیا جبکہ چین کو ’امریکا کے سب سے زیادہ نتیجہ خیز جغرافیائی سیاسی چیلنج‘ کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بدھ کی شام جاری ہونے والی 48 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں جنوبی اور وسطی ایشیائی خطے میں دہشت گردی اور دیگر جیو اسٹریٹجک خطرات کا ذکر ہے لیکن ماضی قریب کے برعکس اس میں ان خطرات سے نمٹنے کے لیے درکار اتحادی کے طور پر پاکستان کا نام نہیں لیا گیا، 2021 کے حکمت عملی پیپر سے بھی پاکستان کا نام غائب تھا۔
واشنگٹن میں اس اقدام کو پاکستان کے ساتھ الگ امریکی تعلقات استوار کرنے کی باہمی خواہش کی عکاسی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسلام آباد کو طویل عرصے سے یہ شکایت رہی ہے کہ امریکا پاکستان کو صرف افغانستان اور دیگر ممالک سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر دیکھتا ہے۔
حالیہ بیانات میں امریکی اور پاکستانی حکام دونوں نے پاکستان کو افغانستان اور بھارت دونوں سے الگ کرنے اور اسے الگ شناخت دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ جس کا وہ 22 کروڑ سے زیادہ آبادی کی جوہری ریاست کے طور پر مستحق ہے۔
امریکی حکام نے بھی پاکستان کی چین کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش کو تسلیم کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے خطے میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی امریکی حکمت عملی میں اتحادی کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔
چین کے بعد روس کو امریکی عالمی مفادات کے لیے دوسرا بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے اور پڑوسی ملک یوکرین پر ’وحشیانہ اور بلا اشتعال جنگ‘ چھیڑنے کے لیے اس کی مذمت کی گئی۔