واشنگٹن : نئے سال 2022 کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کے اہداف کا خاکہ پیش کرتے ہوئے، سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے افغان معیشت میں مزید لیکویڈیٹی شامل کرنے کے اختیارات پر ‘شدید غور کرنے کا وعدہ کیا۔سال کی اختتامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے نشاندہی کی کہ ’روس کا یوکرین کے لیے جارحانہ رویہ، ایران کے جوہری پروگرام اور چین کی جانب قواعد پر مبنی عالمی بین الاقوامی نظام کو چیلنج کرنے کی کوشش‘ سال 2022 کے کلیدی چیلنجز کے مترادف ہیں۔افغانستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا نے حال ہی میں افغان ٹرسٹ فنڈ کے لیے 28 کروڑ ڈالر کے اجرا میں اپنا حصہ شامل کیا ہے
اور ’ ہم افغان معیشت میں لیکویڈیٹی شامل کرنے کا رستہ تلاش کر رہے ہیں تاکہ افغان شہریوں کو مزید رقم فراہم کی جاسکے‘۔انہوں نے کہا کہ امریکا دیگر ممالک اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ’صحیح میکنزم کااستعمال کرتے ہوئے ایسا راستہ تلاش کیا جائے جس سے براہِ راست طالبان کو نہیں اور لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے‘۔امریکا افغانستان میں سب سےزیادہ انسانی امداد فراہم کرنے والا واحد ملک ہے،
اور اس کے فنڈز میں پہلے ہی 50 لاکھ ڈالر کا تعاون کر چکا ہے۔تاہم، امریکا کی امداد اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے پہنچائی جارہی ہےکیونکہ امریکا طالبان کے اقتدار میں براہِ راست امداد سے انکار کر چکا ہے۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ اس طرح کی پابندیوں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ طالبان بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اتریں۔انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ اگر کابل کے نئے حکمران خود کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی پالیسیوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں انسانی حقوق، آزادانہ نقل و حرکت، انتقامی حملوں اور انسداد دہشت گردی سمیت دیگر اقدامات کی تجویز دی گئی ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں جوبائیڈن انتظامیہ نے افغانستان میں خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے دو خصوصی ایلچی تقرر کیے ہیں۔سیکریٹری بلنکن نے کہا کہ ایلچی ان کے ساتھ’خواتین، لڑکیوں اور خطرے میں گھرے شہریوں کی بنیادی آزادی‘ کے مسئلے پر کام کریں گے۔یہ تقرریاں کابل میں نئی پابندیوں کے بعد کی گئی ہیں، جس میں خواتین کو مردوں کے بغیر طویل سفر کرنے یا اکیلے اسکول، کالج اور یونیورسٹیز جانے سے روکا گیا ہے،
یہ پابندیاں 15 اگست کو اقتدار سنبھالتے ہوئے طالبان کی جانب سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے طالبان کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ برقرار رکھا گیا ہے تاکہ انہیں ان کی رجعت پسندانہ پالیسیاں تبدیل کرنے پر قائل کیا جاسکے۔سیکریٹری انٹونی بلنکن نے کہا کہ تشویش کے باوجود جوبائیڈن انتظامیہ نے متعدد جنرل لائسنس جاری کیے ہیں
تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ’دیگر ممالک اور ادارے افغانستان امداد پہنچانے میں خوف محسوس نہ کریں اور یہ نہ سوچیں کہ ان کے خلاف پابندیوں کا اطلاق یا نفاذ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ لائسنس میں امریکی عہدیدار کو یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے براہِ راست مذاکرات کریں۔انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے ہم بہت پریشان ہیں کہ وہاں اس وقت انسانی حالات مشکل ہیں اور موسمِ سرما میں یہ مزید خراب ہوسکتے ہیں،
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ان مسائل پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔اگست میں امریکا کے پاس افغانستان کے ساڑھے 9 ارب ڈالر کے منصوبے منجمند تھے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اگر افغانستان کو استثنیٰ دی گئی تو کیا ہے اثاثے بحال کیے جائیں گے۔