امریکا کے ایوانِ نمائندگان نے جمعرات کو ری پبلکنز پارٹی کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیف ہافتہ اخراجات سے متعلق پیکج مسترد کر دیا ہے، اس کے بعد امریکا میں شٹ ڈاؤن کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کے باوجود 38 ری پبلکنز نے پیکج کے خلاف ووٹ دیا، جب کہ 3 ڈیموکریٹس ارکان کے علاوہ تمام نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔
ایوانِ نمائندگان میں حکومتی اخراجات کے پیکج پر ووٹنگ کے دوران 235 ارکان نے اس کی مخالفت کی، جب کہ 174 نے حمایت میں ووٹ دیا۔
حکومتی فنڈنگ کی میعاد جمعے کی شب ختم ہو رہی ہے، اگر قانون ساز ڈیڈ لائن میں توسیع کرنے میں ناکام رہے تو امریکی حکومت جزوی شٹ ڈاؤن پر چلی جائے گی، جس کی وجہ سے حکومتی ادارے معمول کے مطابق کام جاری نہیں رکھ پائیں گے۔
شٹ ڈاؤن کے باعث مالیاتی امور سے لے کر نیشنل پارکس میں کوڑا اٹھانے تک سرکاری خدمات متاثر ہوں گی۔
امریکی ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن نے خبردار کیا ہے کہ کرسمس کی چھٹیوں کے موقع پر مسافروں کو ہوائی اڈوں پر طویل قطاروں میں انتظار بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر مائک جانسن سے جب صحافیوں نے سوال کیا کہ اگلا قدم کیا ہوگا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم ایک اور حل کے ساتھ آئیں گے‘۔
اس سے قبل امریکی کانگریس کے اعلیٰ ترین ڈیموکریٹک اور ری پبلکن اراکین ایک عبوری بجٹ پیکج پر کام کر رہے تھے، تاکہ وفاقی اداروں کو اگلے سال 14 مارچ تک کام کرنے کے لیے فنڈز دستیاب رہیں۔
تاہم ٹرمپ اور ان کے حامی امیر ترین شخص ایلون مسک نے عبوری بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے اسے ڈیموکریٹس کے لیے ایک ’فضول تحفہ‘ قرار دیا تھا۔
ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکنز بل پر ووٹنگ سے قبل ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز دونوں نے ہی خبردار کیا تھا کہ اگر کانگریس نے حکومت کو شٹ ڈاؤن کی اجازت دی تو دوسری جماعت غلطی پر ہو گی۔
امریکا میں شٹ ڈاؤن کی صورت میں لاکھوں وفاقی ملازمین بغیر تنخواہ ملازمت سے معطل ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں متعدد سرکاری کام رک جاتے ہیں۔
البتہ ’ناگزیر‘ کاموں سے منسلک اہل کاروں کو معطل نہیں کیا جاتا، لیکن شٹ ڈاؤن ختم ہونے تک انہیں ادائیگیاں نہیں کی جاتیں۔