جاسوسی کیلئے اسرائیلی سافٹ ویئر کا استعمال کرنیوالوں میں بھارت بھی شامل

eAwazورلڈ

اسرائیلی کمپنی کے بنائے ہوئے جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے گزشتہ سال دنیا بھر میں 12 سے 13 ہزار افراد کی جاسوسی کی گئی جس کا استعمال کرنے والوں میں انڈیا کی حکومت بھی شامل ہے۔

یہ بات یورپین پارلیمنٹ میں اس جاسوس سافٹ ویئر کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پیگا کمیٹی میں اسرائیلی کمپنی NSO کے نمائندے خائم گلفانڈ اور پبلک سیکٹر کے آزاد ایکسپرٹس نے بتائی۔

یاد رہے کہ یورپین پارلیمنٹ نے یورپ اور دنیا بھر میں سیاستدانوں، صحافیوں، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ان کے اپنے فون کے ذریعے جاسوسی کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی تحقیقات کے لیے 10 مارچ 2022ء کو PEGA کے نام سے ایک سال کے عرصے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی تھی۔

جس کے سربراہ نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے EPP گروپ کے لینارز جیرون ہیں۔

اس گروپ میں مختلف پارلیمانی گروپوں کے 30 مستقل اور 30 ہی متبادل ممبران ہیں۔

پارلیمنٹ کی اس کمیٹی میں منگل کے روز ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ایکسچینج آف ویووز (EoV) اور پبلک ہیئرنگ کے دوران ممبران پارلیمنٹ نے اپنے سوالات کے ذریعے جاسوسی سافٹ ویئر بنانے والی معروف اسرائیلی کمپنی NSO کے جنرل کونسل اور چیف کمپلائنس آفیسر خائم گلفانڈ کو اپنے متواتر سوالات کے ذریعے اُدھیڑ کر رکھ دیا۔

ممبران نے کمپنی کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ اس کے گاہک صرف حکومتیں ہیں، اس لیے اس سافٹ ویئر کے غلط استعمال کے بارے میں بھی انہی سے پوچھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کمپنی کے اس مؤقف کو بھی رد کیا کہ یہ سافٹ ویئر صرف دہشت گردوں کے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے اور اس سے بہت سے لوگوں کی جان بچائی گئی ہے۔

ممبران پارلیمنٹ کے متواتر سوالات میں کمپنی کے نمائندے نے جو جوابات دیے ان میں سامنے آیا کہ کئی یورپین حکومتوں سمیت دنیا بھر میں اس وقت اس کمپنی کے 50 کے قریب گاہک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال یعنی 2021ء میں 12 اور 13 ہزار کے درمیان افراد کی فون کے ذریعے جاسوسی کی۔

اسی دوران ایک ممبر پارلیمنٹ نے الزام عائد کیا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تعداد 50 ہزار تھی جس میں یورپین کمیشن میں بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے کمشنر برائے انصاف دیدیے رینڈرز، یورپین کمیشن کے کئی آفیشلز، مختلف حکومتوں کے اہم ترین عہدیدار، اپوزیشن رہنما، ججز، صحافی اور انسانی حقوق کے کئی کارکنان شامل تھے۔

ایک اور ممبر پارلیمنٹ نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کے سسٹم کی موجودگی میں دنیا آج پہلے سے کم آزاد ہے، ممبران نے مطالبہ کیا کہ کمپنی اس ایوان اور اس کمیٹی کو اپنے گاہکوں کی لسٹ فراہم کرے۔

جواب میں کمپنی کے نمائندے نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کی شق 17 اور 19 کے مطابق بنیادی حقوق کی بھی ایک تشریح ہے۔

اگر اجتماعی سلامتی کو خطرہ ہو تو یہ حق ختم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ ہر حکومت اپنے لحاظ سے اس حق کی تشریح کرتی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں این ایس او کے نمائندے نے بتایا کہ اس وقت دنیا بھر میں کچھ مسلمان ممالک، چین اور روس سمیت 30 ممالک میں جاسوسی سافٹ ویئر بن رہا ہے لیکن اپنی کارکردگی کے لحاظ سے ہم بیسٹ ہیں۔

جب بہت سے ممبران نے اس بات کی شکایت کی کہ یہ سافٹ ویئر معصوم لوگوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، اس کے علاوہ مختلف ممالک میں حکومتیں تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں تو اس کے بعد پہلی والی حکومت کے لوگ ان کے لیے اپوزیشن بن جاتے ہیں تو کون سا ایسا نظام ہے جس کے تحت کمپنی کسی شکایت پر کارروائی کر سکتی ہے؟

کمپنی کے نمائندے نے اس کا ملبہ بھی اس ملک کی حکومت پر ہی ڈالا تاہم انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے کمپنی کی ویب سائٹ پر وسل بلوورز کے لیے ایک ای میل دی گئی ہے، وہاں شکایت کی جا سکتی ہے۔

نمائندے نے آگاہ کیا کہ انہیں اب تک 25 شکایات موصول ہوئیں جس پر کارروائی کرتے ہوئے 8 گاہکوں کے لائسنس منسوخ ہوئے۔

انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کئی ممالک کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے بھی یہ سافٹ ویئر فروخت کیے گئے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ معاہدے کے بعد کمپنی کے لوگ، گاہک ملک کے کمیونیکیشن کے نظام میں یہ سافٹ ویئر داخل کر دیتے ہیں اور اس کے عملے کو ٹرینڈ بھی کرتے ہیں جبکہ بعد ازاں انہیں ضرورت پڑنے پر تکنیکی مدد بھی دی جاتی ہے۔

مجموعی طور پر ممبران کمپنی کے نمائندے کے جوابات سے غیر مطمئن نظر آئے۔

پیگا کمیٹی کے اس اجلاس کے اگلے مرحلے میں پبلک ہیئرنگ ہوئی، جہاں پرائیویسی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ایڈن ایمانووچ، گارڈین اخبار کی انویسٹیگیٹیو جرنلسٹ اسٹیفنی کرسگیزنر اور ڈیلفٹ یونیورسٹی نیدرلینڈز میں فیکلٹی آف ٹیکنالوجی، پالیسی اینڈ مینیجمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر بین ویخنر نے اس شعبے کی مختلف جہات پر ممبران پارلیمنٹ کو بریفنگ دی۔

ان ایکسپرٹس نے الزام عائد کیا کہ بھارت اور میکسیکو نے سول سوسائٹی کے ارکان اور اپنے عام شہریوں کے خلاف اس سافٹ ویئر کو استعمال کیا ہے، انہیں سزائیں دیں، اسی طرح بادشاہتیں رکھنے والے کئی ممالک نے بھی ایسا ہی کیا۔

انہوں نے متوجہ کیا کہ ضروری نہیں کہ ٹارگٹڈ شخص کے فون میں ہی یہ نظام ڈالا جائے بلکہ اس کے لیے اس شخص کے دیگر قریبی افراد کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے مرحوم صحافی جمال خاشقجی کی مثال بھی دی گئی جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی اہلیہ اور خاشقجی کے ایک مغربی ملک میں مقیم دوست کے رابطے کے ذریعے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں۔

علاوہ ازیں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ دہشتگردی کی غلط تشریح کر کے اپنے دشمنوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اگر آج اس صورتحال کو نہ روکا گیا اور اس پر ممبران اور سول سوسائٹی خاموش رہی تو ایک دن اس کا نتیجہ ہم سب کو بھگتنا ہوگا۔