جیسے جیسے حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل آگے بڑھا، حماس کے سابق سربراہ یحییٰ سنوار کی لاش کے بارے میں بھی بات ہو رہی ہے۔
سعودی عربیہ چینل نے "مذاکرات کے عمل کے قریبی ذرائع” کے حوالے سے بتایا تھا کہ حماس نے معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں سنوار کی لاش کے حصول کے لیے مذاکرات کرنے کی کوشش کی تھی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، حماس کی اس کوشش کو اسرائیل نے مسترد کر دیا تھا تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل اور حماس نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اب جب اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ ہو رہا ہے، تو یحییٰ سنوار کی لاش کی بازیابی کے امکان پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ کیا یہ قریب یا بعید مستقبل میں ممکن ہے یا پھر یہ ممکن نہیں؟
یحییٰ سنوار کو 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیلی حملے کا منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک روپوش تھے، لیکن اسرائیلی حملے میں مارے گئے، جو اسرائیل کے لیے بھی ایک سرپرائز تھا۔
اکتوبر 2024 میں اسرائیلی ڈرون کے ذریعے ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں غزہ کے رفح علاقے میں ایک تباہ حال عمارت کے سامنے ایک زخمی شخص نظر آ رہا تھا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ شخص، جو جنگی لباس میں تھا، حملے میں ہلاک ہو گیا تھا، اور بعد میں یہ تصدیق ہوئی کہ یہ شخص یحییٰ سنوار ہی تھے۔
اسرائیل نے سنوار کی میت کی شناخت ان کے دانتوں کے ریکارڈ اور ڈی این اے کی مدد سے کی۔ ان کے پوسٹ مارٹم کے مطابق، سنوار کی موت سر میں گولی لگنے سے ہوئی تھی۔
یحییٰ سنوار کا تعارف: یحییٰ سنوار 61 سال کے تھے اور انہیں "ابو ابراہیم” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ غزہ کے خان یونس میں ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ سنوار کو پہلی بار 1982 میں اسرائیل نے گرفتار کیا تھا، اور وہ 1988 سے 2011 تک 22 سال اسرائیلی جیلوں میں رہے۔
سنوار 2013 میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن منتخب ہوئے اور 2017 میں انہیں اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 7 اکتوبر 2023 کو، انہوں نے اپنے جنگجوؤں کے ساتھ اسرائیل پر حملہ کیا جو اسرائیل کی بدترین ناکامی ثابت ہوا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان سنوار کی لاش کی حوالگی پر اختلاف: حماس نے سنوار کی لاش کی بازیابی کے لیے بات کی تھی لیکن اسرائیل نے اس کو مسترد کر دیا۔ فلسطینی محقق مامون ابو عامر نے بتایا کہ جنگ بندی مذاکرات کے پہلے مرحلے میں سنوار کی لاش پر بات ہوئی تھی، لیکن اسرائیل نے اس پر مزاحمت کی۔ تاہم، ابو عامر کا کہنا تھا کہ حماس نے سنوار کی لاش کی خصوصی درخواست نہیں کی تھی، بلکہ تمام شہداء کی اسلامی طریقے سے تدفین چاہی تھی۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ سنوار کی لاش ایک اہم "پریشر کارڈ” ہو سکتی ہے، اور یہ ممکن ہے کہ اسرائیل اس لاش کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے۔
یہودی قانون کے مطابق مروں کی تدفین کا بہت احترام کیا جاتا ہے، اور فلسطینی مروں کی بازیابی کے لیے بہت سے کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں۔
نتیجہ: اسرائیل اور حماس کے درمیان اس وقت سنوار کی لاش کی حوالگی کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ یہ معاملہ ممکنہ طور پر مستقبل میں مذاکرات کا حصہ بن سکتا ہے، لیکن فی الحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔