قوام متحدہ، امریکی قانون سازوں کی افغانستان کو معاشی بدحالی سے بچانے کی کوششوں کی حمایت
واشنگٹن : اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں معاشی بحران کو روکنے کے لیے دنیا سے مدد کی اپیل کی گئی جبکہ 39 امریکی قانون سازوں نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ کے 17ویں غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل برائے انسانی حقوق مارٹن گرفتھ نے دنیا کو یاد دلوایا کہ افغانستان کو مکمل تباہی سے بچانے کا ’یہی موقع‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نہ صرف افغان عوام کی جانیں بچانے کے لیے بلکہ فلاحی تنظیموں کے کام کرنے کے لیے بینکنگ نظام کا استحکام اور لیکویڈیٹی اب فوری ضرورت بن گئی ہے‘۔دوسری جانب واشنگٹن میں 30 امریکی قانون سازوں کا دستخط شدہ خط امریکی سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری خزانہ کو بھیجا گیا ہے جس میں افغانستان کی گرتی ہوئی معیشت کی مدد کرنے اور ملک کے منجمد اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس خط میں 4 تجاویز پیش کی گئیں ہیں، ان میں سے پہلی تجویز 9 ارب ڈالر سے زائد کے منجمد اثاثے اقوام متحدہ کی کسی ایجنسی کے سپرد کرنا، دوسری تجویز پابندیوں سے استثنیٰ کو افغانستان میں کام کرنے والی مزید بین الاقوامی تنظیموں تک پھیلانا، تیسری تجویز ضروری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کثیرالجہتی تنظیموں کی مدد لینا اور چوتھی تجویز بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو ’اقتصادی بحران روکنے کے لیے افغان معیشت میں ضروری سرمایہ داخل کرنے کی‘ اجازت دینے کی ہے۔
اپنے خطاب میں مارٹن گرفتھ نے خبردار کیا کہ افغانستان کی معیشت زوال کا شکار ہے اور اگر اس کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو یہ افغان عوام کو اپنے ساتھ لے ڈوبے گی۔انہوں نے اپنے خطاب میں افغانستان کی افسوسناک صورتحال پیش کی جس کے مطابق وہاں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں، بچے ناقص غذائیت کا شکار ہیں، 70 فیصد اساتذہ تنخواہوں کے بغیر کام کر رہے ہیں
اور لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ افغان کرنسی کی گرتی ہوئی قدر، مالیاتی شعبے پر عدم اعتماد، تجارت میں کمی اور قرض لینے اور سرمایہ کاری کرنے کے کم ہوتے ہوئے مواقع نے صورتحال مزید پیچیدہ بنادی ہے۔مارٹن گرفتھ نے دسمبر کے آخر تک یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پروگرام کو عالمی بینک کے افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ کی جانب سے 28 کروڑ ڈالر کی امداد ملنے کو بھی سراہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس مرحلے کے بعد اس فنڈ کو رواں موسم سرما میں افغان عوام کی مدد کے لیے تبدیل کردیا جائے گا‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’خاندانوں کے پاس روزمرہ کی خریداری کے لیے بھی رقم نہیں ہے جبکہ ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش ہے، وہاں لاکھوں لوگ بھوک، بیماری اور موت کے خطرے سے دوچار ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یہ اجلاس اس لیے منعقد کیا تاکہ افغان عوام کے ساتھ اسلامی دنیا کی حمایت کا اظہار کیا جاسکے اور ’افغانستان میں جنم لینے والے انسانی المیے کو روکنے کے لیے مربوط عالمی ردعمل کے حوالے سے عالمی برادری کو متحرک کیا جاسکے‘۔اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل نے خبردار کیا کہ ’افغانستان کی 30 فیصد جی ڈی پی ختم ہوچکی ہے
جبکہ بےروزگاری بھی دگنی ہو کر 29 فیصد تک جاسکتی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ساڑھے 4 ارب ڈالر کی اب تک کی سب سے بڑی فنڈنگ کی اپیل کرے گا ’تاکہ افغانستان میں کمزور افراد کی مدد کی جائے‘۔انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ان 2 کروڑ 10 لاکھ افراد کی مدد کا ایک عارضی حل ہے جن کو اس وقت اپنی جانوں کا خطرہ لاحق ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کو ترجیح میں رکھ کر اس کی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔