جیسے جیسے امریکی صدارتی انتخاب قریب آ رہا ہے اس سے انتخابی موسم میں بھی شدت آتی جا رہی ہے، مسلم ووٹرز دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ غزہ کا جاری تنازع ہے۔
اس ضمن میں مختلف جائزوں سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ غزہ کی جنگ کے باعث مسلم ووٹرز نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر کملا ہیرس دونوں کے اسرائیل کے بارے میں مؤقف پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
اس تبدیلی نے تیسری پارٹی کے امیدواروں کی جانب ایک ممکنہ متبادل کے طور پر اپنی توجہ مبذول کروائی ہے اور مسلم ووٹرز تھرڈ پارٹی امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے ترجیح دینے لگے ہیں۔
کونسل آف امیریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کی جانب سے دو ماہ قبل کروائے گئے سروے کے مطابق نائب صدر کملا ہیرس اور گرین پارٹی کے امیدوار جِل اسٹین کو مسلم ووٹرز کی 29 فیصد حمایت حاصل ہے جبکہ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی مسلم ووٹرز کی تعداد 11 فیصد ہے۔
اس سروے سے غزہ جنگ کے اثرات کے حوالے سے مسلم ووٹرز کے رجحانات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ پچھلی بار کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کو مسلم ووٹرز کی بھاری حمایت حاصل ہوئی تھی اور ان کو مسلمانوں کے 65 فیصد ووٹ ملے تھے مگر اب اس حمایت میں بہت واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔
کئی مسلم ووٹرز اب تیسری پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے یا کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا سوچ رہے ہیں۔
دوسری جانب حال ہی میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم کمیونٹی کے ساتھ روابط بڑھائے اور حالیہ طور پر مشی گن میں عرب مسلم رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیں جن کے نتیجے میں وہاں کے مسلمانوں نے 2 دن قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن ریلی میں ان کی حمایت کا بڑا اعلان کر دیا۔
مشی گن کے مسلم ووٹرز نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کروانے کا وعدہ کیا ہے اس لیے اب مشی گن سے مسلمانوں کی یہ حمایت ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہے، مگر اس کے باوجود بھی کئی مسلمان تیسری پارٹی کے امیدواروں کو ایک آپشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اس وقت امریکی صدارتی انتخابات میں21 تھرڈ پارٹی امیدوار بھی موجود ہیں۔
تھرڈ پارٹی امیدواروں کی سب سے زیادہ تعداد لوزیانا، مشی گن، مینیسوٹا، مسیسیپی اور نیو جرسی سے ہے جہاں 7، 7 تھرڈ پارٹی امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔