ڈونالڈ ٹرمپ پر مارکیٹ مانیپولیشن کا الزام عائد کیا جا رہا ہے، جب انہوں نے بدھ کی صبح Truth Social پر لکھا:
اور چند گھنٹے بعد ہی اپنی تجارتی پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے اضافی ٹیرف 90 دن کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا، جس سے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی۔
S&P 500 انڈیکس 9 فیصد سے زیادہ اوپر بند ہوا، جبکہ Nasdaq میں 12 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ جاپان کا Nikkei 225 انڈیکس 9 فیصد بڑھا، اور لندن کا FTSE 100 بھی جمعرات کی صبح 4 فیصد اوپر گیا۔
ٹرمپ عموماً اپنی پوسٹس پر “DJT” سائن نہیں کرتے – جو کہ ان کی کمپنی Trump Media & Technology Group کا اسٹاک ٹِکر ہے، جس کے شیئرز میں اسی دن 22 فیصد اضافہ ہوا۔
اس مشتبہ ٹائمنگ پر ڈیموکریٹس کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ سینیٹر ایڈم شف نے تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا:
“یہ پالیسی میں بار بار تبدیلیاں اندرونی معلومات کے غلط استعمال کے مواقع پیدا کرتی ہیں۔”
سینیٹر کرس مرفی نے بھی X پر لکھا: “ایک اندرونی تجارتی اسکینڈل جنم لے رہا ہے۔” جبکہ کانگریس وومن الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے تمام ممبران سے گزشتہ 24 گھنٹوں میں خریدی گئی اسٹاکس کی تفصیل مانگ لی۔
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کب کیا، تو ان کا مبہم جواب تھا: “آج صبح… یا پچھلے چند دنوں سے سوچ رہا تھا۔”
وائٹ ہاؤس نے اسے ٹرمپ کی "آرٹ آف دی ڈیل” کا حصہ قرار دیا۔
ریپبلیکن رکنِ کانگریس مارجوری ٹیلر گرین نے انکشاف کیا کہ انہوں نے 3 اور 4 اپریل کو ایپل اور ایمازون کے اسٹاک خریدے – ان دنوں جب مارکیٹ نیچے تھی۔ ان کمپنیوں کے شیئرز میں بدھ کو 15 فیصد تک اضافہ ہوا۔
اگرچہ بیشتر ٹیرفز کو ملتوی کر دیا گیا ہے، لیکن چین پر دباؤ برقرار رکھتے ہوئے ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر ٹیرف 125 فیصد تک بڑھا دی، جبکہ چین نے بھی جمعرات سے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد ٹیرف لگا دیا ہے۔