کئی دنوں تک ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وہ درجنوں ممالک پر "جوابی” ٹیرف لگانے کے فیصلے پر قائم ہیں۔ منگل کو جب ایک رپورٹ میں 90 دن کے وقفے کا ذکر ہوا تو وائٹ ہاؤس نے اسے مذاق میں اڑا دیا، اگرچہ اس خبر سے اسٹاک مارکیٹ میں وقتی اضافہ ہوا۔
لیکن اب یہ وقفہ حقیقت بن چکا ہے، چند اہم استثناؤں کے ساتھ۔ عالمی معاشی نظام کی ممکنہ تبدیلی مؤخر ہو گئی ہے، اور امریکی صنعت کی "سنہری دور” کی ٹرمپ کی پیش گوئی بھی مؤخر ہو گئی۔
وائٹ ہاؤس کا مؤقف ہے کہ ٹیرف لگانا اور پھر مذاکرات کے لیے توقف اختیار کرنا منصوبے کا حصہ تھا۔ "ہم سے 75 سے زائد ممالک نے رابطہ کیا ہے، اور اب مزید کریں گے،” وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا۔
یہ فیصلہ ایسے وقت آیا جب سرمایہ کاروں میں بے چینی، بانڈ مارکیٹ کی گراوٹ، ریپبلکنز کی تنقید اور عوامی عدم اطمینان عروج پر تھا۔
کیا یہ دباؤ میں پسپائی تھی یا پھر ٹرمپ کی ‘آرٹ آف دی ڈیل’ کی نئی مثال؟
ٹرمپ کے مشیروں نے اسے کامیاب حکمتِ عملی قرار دیا۔ تجارتی مشیر پیٹر نوارو نے کہا، "یہ سب کچھ ٹھیک وقت پر ہوا۔”
تاہم اعلان کی تفصیلات مبہم تھیں۔ کیا یورپی یونین، میکسیکو یا کینیڈا بھی شامل تھے؟ کیا کچھ مخصوص شعبے متاثر ہوئے؟
وائٹ ہاؤس نے بعد میں کچھ وضاحت کی، مگر اس سے پہلے ممالک صرف ٹرمپ کی Truth Social پوسٹ اور رپورٹرز کے سوالات سے اشارے لیتے رہے۔
بدھ کو ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ مارکیٹس "اداس” نظر آ رہی تھیں، اور لوگ پریشان ہو رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے پیغام دیا: "BE COOL!”
ڈیموکریٹس نے تنقید کی۔ چک شومر نے کہا: "یہ بدنظمی سے حکومت کرنے کا مظاہرہ ہے۔”
اگرچہ ٹیرف میں نرمی آئی ہے، پھر بھی 10٪ عمومی ٹیرف برقرار ہے۔ چین پر 125٪ نیا ٹیرف ٹرمپ کی سخت پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے، جو امریکی مفادات کے قریب سمجھی جا رہی ہے۔
اصل امتحان 90 دن بعد ہوگا، جب یہ وقفہ ختم ہوگا — اور شاید نیا بحران جنم لے۔