حکومت رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے جائیداد بیچنے اور خریدنے والے فائلرز اور نان فائلرز دونوں کےلیے ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجاویز زیر غور کر رہی ہے۔
روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ کے مطابق ذاتی غیر منقولہ جائیداد کی تعریف تبدیل کرنے پر بھی غور، مختلف شہروں میں رئیل اسٹیٹ کی قدر کے گوشواروں میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے، 5کروڑ تک کی مالیت کی جائیدادوں پر تین فیصد، 7 کروڑ تک 4 فیصد اور 10 کروڑ کی جائیدادوں پر 7 فیصد ٹیکس جائیداد بیچنے والوں سے لیا جائےگا۔
یہ بھی زیر غور ہے کہ کیپیٹل گینز کو آمدنی میں شامل کیا جائے (افراد کے معاملے میں، اس طرح کے گینز کو "جائیداد سے آمدنی” کے تحت اور کارپوریشنز کے معاملے میں، اس طرح کے گینز کو "کاروبار سے آمدنی” کے تحت شامل کیا جائے۔
یہ تجویز کیا گیا ہے کہ انکم ٹیکس کے سیکنڈ شیڈول کے پارٹ I کے کلاز (126D) میں اسپیشل ایکسپورٹ زون میں صنعتی ادارے کے لئے کیپیٹل گینز کی چھوٹ کو ختم کیا جائے۔ ریئل اسٹیٹ فیڈریشن کے صدر نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ دہرے ٹیکسوں کے نفاذ سے گریز کیاجائے، پہلے ہی 25 ارب ڈالرتک سرمایہ کاری کےلیے دوسرے ملکوں میں جاچکے ہیں۔
جائیدادوں پر محصولات میں اضافے سے متعلقہ ایک اور تجویز بھی ہے جو کہ اگرچہ براہ راست بجٹ بنانے کی مشق سے براہ راست متعلق تو نہیں ہے لیکن ایف بی آر مختلف شہروں میں املاک کے قیمتوں کے گوشواروں کو بڑھا سکتا ہے تاکہ مارکیٹ ریٹ اور ایف بی آر کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں فرق کو کم کیاجاسکے۔
ایف بی آر بڑے شہروں میں قیمتوں کے گوشواروں پراضافے کےلیے نظر ثانی تو کرتا رہا ہے لیکن ابھی تک اس کااعلان نہیں کیا۔ چنانچہ آئندہ مالی سال کے آغاز پر ان نظر ثانی شدہ نرخوں کااعلان ہوسکتا ہے۔ قدری گوشواروں میں اوپر کی جانب اضافے سے ایف بی آر کو شہروں کے مختلف علاقوں میں موجود پلاٹوں کی قدری شرحوں کی بنیاد پر مزید ٹیکس جمع کرنے کا موقع ملا۔
236 سی کے تحت غیر منقولہ املاک پر کی فروخت اور تبادلے پر ایک پیشگی ( ایڈوانس) ٹیکس عائد ہے۔
اب ایف بی آر انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 37(1) کے تحت’’ ذاتی منقولہ املاک ‘‘کے معانی میں ترمیم پر غور کر رہا ہےتاکہ اس زمرے میں کسی بھی ایسی املاک کو لایاجاسکے جو کہ سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے رکھی گئی ہو، لیکن اس میں کاروباری حصص اور وہ اثاثےشامل نہیں ہوں گے جو کہ بوسیدگی کا شکار ہوتے ہیں یا انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت جس سے آمدن ہوتی ہے۔
ایف بی آر ریئل اسٹیٹ اور لسٹڈ سیکورٹیز پر کیپیٹل گینز کےلیے ٹیکس سلیبز پر نظرثانی کریگا اور یہ یقینی بنائے گاکہ اس قسم کے فوائد پرمحصولات متناسب شرح سے لیے جارہے ہیں اور یہ شق ختم کی جائے گی کہ کیپیٹل گینز پر اس وقت تک ٹیکس نہیں ہوتا جب تک کہ زیرتذکرہ اثاثوں کے حصول کو ایک خاص مدت نہ گزر گئی ہو۔
کیپیٹل گینز پر محصولات کو مضبوط بنایاجاسکتا ہے اس کا ایک طریقہ تو اثاثوں کی اقسام کو توسیع دیتا ہے جسا کہ کرپٹو کرنسی وغیرہ جو کہ کیپیٹل گینز ٹیکسیشن کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ ایک اور چیز ریئل اسٹیٹ اور لسٹڈ سکیورٹیز پر کیپیٹل گین حاصل کرنا یقینی بنانا ہے قطع نظر اس کے کہ کسی چیز کی مدت ملکیت کیا ہے۔
ریئل اسٹیٹ فیڈ ریشن آف پاکستان کے سردار طاہر محمود سے جب دی نیوز نے رابطہ کیا تو ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کے مشکل سے کمائے ہوئے 20 سے 25 ارب ڈالر سرمایہ کاری کیلیے دبئی اور دیگر مقامات پر جاچکے ہیں چناچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کے اس موڑ پر دہرے محصولات کے نفاذ سے گریز کیاجائے۔ انہوں نے سفارش کی کہ ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ مختلف شرحوں کےلیے ریئل اسٹیٹ کے متفقہ قدری گوشواروں کا اعلامیہ جاری کرے۔