لاہور ہائیکورٹ نے پورا انتخابی عمل روک دیا تھا، کیا الیکشن کمیشن کو ختم کر دیں۔ چیف جسٹس

eAwazپاکستان

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے لاہور ہائیکورٹ نے پورا انتخابی عمل روک دیا تھا، کیا الیکشن کمیشن کو ختم کر دیں؟

سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونلز کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا فیصلہ قانون کے مطابق ہے لیکن بتانا چاہ رہا ہوں کہ ہائیکورٹ نے کیا کیا

چیف جسٹس نے کہا فارم 45 والی بات الیکشن ٹربیونل میں ہے، شاید اپیل ہمارے پاس آئے، ہم قانون دیکھیں گے، ہمارا کام یہ دیکھنا نہیں کہ آپ بھاری ووٹ سے جیتے یا نہیں، ہمیں نہیں معلوم آگے پیچھےکیس کیا ہیں، درخواستیں زیر التواء ہیں تو کاپی تو ساتھ لگائیں۔

وکیل رہنما نیاز اللہ نیازی نے کہا الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ آج لےکر جاتا ہے تو اثر تو ہم درخواستگزاروں پر تو پڑےگا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کچھ درخواستیں التواء میں ہونے کے باوجود سن رہے ہیں، لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ جاری کیا، کل سب آجائیں گے ہمیں بھی سن لیں،کسی کو نہ نہیں کر سکتے۔

الیکشن ٹربیونل کیس: چیف جسٹس نے ’معزز‘ کا لفظ استعمال کرنے پر الیکشن کمیشن کے وکیل کی سرزنش کردی
نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ہماری ہائیکورٹ میں درخواستیں التواء میں ہیں، تمام امیدوار کمرہ عدالت میں موجود ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا التواء کیسے ہو سکتی ہے؟ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ تو دے دیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تھا تو صاف کہا تھا ٹربیونلز کے قیام کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ 1977 سے الیکشن کمیشن ہی الیکشن ٹربیونلز قائم کرتا آرہا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پہلے بھی لاہور ہائیکورٹ نے پورا انتخابی عمل روک دیا تھا، کیا الیکشن کمیشن کو ہی ختم کر دیں؟

ان کا کہنا تھا ریٹرننگ افسر کے معاملے پر لاہور ہائیکورٹ نے پورا انتخابی عمل ہی روک دیا تھا، آپ اپنا کام کریں دوسرے کو اپنا کام کرنے دیں۔