چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارنے سے متعلق کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
محسن بیگ کے گھر پر ایف آئی اے کے چھاپے سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
دوران سماعت عدالت نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ آپ نے اس کورٹ اور سپریم کورٹ کو کیا انڈرٹیکنگ دی تھی؟ کیا ایس او پیز بنائے؟ آپ کو کہا تھا کہ ہتک عزت کے معاملے کو آپ نے فوجداری قانون میں رکھا ہوا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کو روگ ایجنسی نہیں بننے دیں گے، آپ کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے، ہر کیس میں ایف آئی اے اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ سے استفسار کیا کہ آپ کو کمپلینٹ کہاں ملی تھی؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ وفاقی وزیر مراد سعید نے 15 فروری کو لاہور میں شکایت درج کرائی، جس پر عدالت نے سوال پوچھا کہ کیا مراد سعید وہاں وزٹ پر گئے ہوئے تھے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ پڑھ کر بتائیں کس جملے سے ہتک عزت کا پہلو نکلتا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے مراد سعید سے متعلق محسن بیگ کا جملہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس جملے میں کتاب کا حوالہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کتاب کا صفحہ نمبر محسن بیگ نے پروگرام میں بتایا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے جواب دیا کہ نہیں، یہ بات پروگرام میں نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو توہین عدالت کا شوکاز جاری کر رہے ہیں، جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ ہم بھی آپ کے بچے ہیں، ایف آئی اے اہلکار کو مارا پیٹا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے جواب میں کہا کہ نہ آپ میرے بچے ہیں اور نہ میں آپ کا باپ ہوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ نے شکایت ملنے پر محسن بیگ کو کوئی نوٹس جاری کیا؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ محسن بیگ کو نوٹس جاری نہیں کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کے قانون میں ہے کہ آپ نے پہلے انکوائری کرنی ہے، آپ نے کوئی انکوائری نہیں کی کیونکہ شکایت وزیر کی تھی، ٹاک شو ٹیلی وژن پر ہوا تو پھر متعلقہ سیکشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ جب وہ ٹاک شو فیس بک، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو ہم نے کارروائی کی، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ نے کیا انکوائری کی؟ کیا ملزم نے وہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کیا؟ اس پروگرام میں کتنے لوگ تھے؟ سب نے وہی بات کی تو باقی تینوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟
ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے جواب دیا کہ باقی لوگوں نے وہ بات نہیں کی جو محسن بیگ نے کی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟ کیا آپ نے وہ کلپ دیکھا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کے پاس کتنی شکایات زیر التوا ہیں؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ پورے پاکستان میں 14000 شکایات زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پوچھا کہ کیا آپ نے تمام شکایات پر گرفتاریاں کیں؟ پیکا ایکٹ کی سیکشن 21 ڈی پڑھیں، آپ خود کو مزید شرمندہ کرنا چاہتے ہیں، اس کے کیا معنی ہیں؟ وہ بتا دیں، آپ اس سیکشن کا کہہ کر شکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کر رہے ہیں، آپ شرمندہ ہونے کے بجائے مزید دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے، اس میں میرا کیا قصور؟ جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو شوکاز زجاری کرکے اٹارنی جنرل کو طلب کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل کو آکر آپ کا دفاع کرنے دیں۔
ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے کہا کہ وہ یہاں آکر میرا کیوں دفاع کریں گے؟ ساری اتھارٹی میں تو ایکسرسائز نہیں کرتا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر آپ لکھ کردیں کہ آپ کو کس نے ہدایات دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کتاب میں کیا لکھا ہے وہ سب جانتے ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سب کیا جانتے ہیں؟ آپ جانتے ہوں گے، یہ عدالت بار بار کہتی رہی ہےکہ آپ محتاط رہیں، مگر کیا میسج دیا جا رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی نہیں؟ اختیار کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عام شکایت ہوتی تب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی، یہ پبلک آفس ہولڈر کی شکایت ہے، آپ کیا میسج دے رہے ہیں؟ عدالت میں جمع کرائے گئے ایس او پیزکی خلاف ورزی کی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ دھمکی ہے کہ اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں، عدالت یہ برداشت نہیں کرے گی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری ریڈنگ پر بھی سیکشن 21 ڈی نہیں بنتا، جس پر عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے جس پر تشویش ہے، کسی جمہوری ملک میں کسی ایجنسی یا ریاست کا ایسا کردار قابل برداشت نہیں ہے۔
درخواست پر سماعت 24 فروری تک ملتوی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی محسن بیگ سے متعلق کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے ساتھ اٹارنی جنرل کو بھی ایف آئی اے کے دفاع کے لیے 24 فروری کو طلب کر لیا۔
عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل مطمئن کریں کہ اس جرم سے متعلق دفعہ کوکیوں نہ ختم ہی کردیا جائے؟
عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے کہا کہ بیان حلفی جمع کرائیں کہ ان کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال پرکیوں کارروائی نہ کی جائے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے کے خلاف درخواست پر سماعت جمعرات24 فروری تک ملتوی کر دی۔