وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور وفاقی وزرا کے اجلاس کی آڈیو لیک ہو گئی۔
آڈیو میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت دیگر رہنماؤں کی آوازیں ہیں۔
لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر ن لیگی رہنما اور وفاقی وزرا پی ٹی آئی کے استعفوں پر بات کر رہے ہیں۔
مبینہ آڈیو لیک میں پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی منظوری پر وفاقی وزرا کی مختلف آراء پر گفتگو کر رہے ہیں، لیک آڈیو میں استعفوں کی منظوری کے لیے لندن سے اجازت لینے کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو لیک ہونے کے بعد وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر سوالات اٹھ گئے ہیں کہ کیا وزیراعظم ہاؤس اتنا غیر محفوظ ہے کہ وہاں ہونے والی گفتگو کہیں اور سنی جاسکتی ہے؟
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آڈیو سامنے آنے کے بعد کیا وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی اجلاس ہو سکتا ہے؟
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کیا حکومت اور وزیراعظم پالیسی سازی کے لیے ان کیمرا اجلاس کرکے مطمئن ہو سکتے ہیں؟
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کیا وزیراعظم ہاؤس میں ایسے خفیہ ریکارڈنگ سسٹم لگے ہوئے ہیں جنہیں حکومتی ارکان بھی نہیں جانتے؟
حکومت اس بارے میں کیا کرنے جارہی ہے، ابھی تک کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی جبکہ ن لیگی ارکان اور وفاقی وزرا کا وزیراعظم ہاؤس کے اجلاس کی آڈیو لیک کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔