پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کم از کم 3صوبے زرعی انکم ٹیکس کی شرح کو 45 فیصد تک بڑھانے کے لیے اپنے قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سندھ نے منظوری کو پنجاب کی جانب سے پہلے قانون کے نفاذ سے جوڑ دیا ہے۔
جاری بات چیت کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پانچ سالوں میں تمام پاور پلانٹس کو کی جانے والی غیر فعال صلاحیت کی ادائیگیوں کے بارے میں معلومات شیئر کرے۔ اس کا مقصد بجلی کی قیمت سے متعلق توانائی کے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کی حکومتی مہم کے حقیقی مثبت اثرات کا جائزہ لینا ہے۔
آئی ایم ایف نے آخری صارفین کے لیے بجلی کی قیمت کو کم کرنے کے لیے پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی اے) پر دوبارہ گفت و شنید کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
پاکستانی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے گزشتہ چار سالوں کے لیے اصل ادائیگی کے اعداد و شمار اور حالیہ مالی سال کے لیے متوقع بیکار صلاحیت کی ادائیگیوں کو شیئر کرنے کو کہا ہے۔
یاد رہے حکومت پہلے ہی توانائی کی خریداری کے پانچ معاہدے ختم کر چکی ہے اور مزید 18 پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ حکومت کے خلاف یہ تنقید بھی کی گئی تھی کہ وہ پاور پلانٹس کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے بیوروکریٹس کو تحفظ دے رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی اور انرجی ٹاسک فورس کے شریک چیئرمین محمد علی نے پارلیمانی کمیٹی کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت توقع کر رہی ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنے یا ان معاہدوں کو ختم کرنے سے سالانہ 300 ارب روپے تک کی بچت ہوگی۔
ذرائع کے مطابق 51 روپے فی یونٹ لاگت میں سے 18.5 روپے فی یونٹ بیکار کیپسٹی کی لاگت ہے، قیمت میں شامل 16روپے فی یونٹ ایسی کراس سبسڈی ہے جو حکومت 200 یونٹ تک کے صارفین کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے اعلیٰ کیٹیگری کے صارفین سے زبردستی وصول کرتی ہے۔ رہائشی اور تجارتی صارفین سے وصول کی جانے والی اس کراس سبسڈی کو ختم کرنے سے توانائی کے سودوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنے سے 800 فیصد زیادہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف، آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں سے صوبائی مالیاتی امور اور زرعی انکم ٹیکس کی شرح 45 فیصد تک بڑھانے کے حوالے سے آئی ایم ایف کی شرط پر عمل درآمد کی صورتحال پر الگ الگ بریفنگ لی ہے۔