طالبان افغانستان میں دوبارہ فتح یاب ہوں گے ،یہ طویل اور مہنگی جنگ لاحاصل ثابت ہوگی”، جنرل اشفاق پرویز کیانی کی پیشنگوئی کے حوالہ سے سابق امریکی عہدیدار ولی نصر کا انکشاف

Momin Masoodاردو خبریں, پاکستان

اسلام آباد۔20اگست:امریکہ کے 2013ء میں نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ ہال بروک کے اس وقت کے مشیر ولی نصر نے اپنی کتاب میں پیشنگوئی کی تھی کہ اس بات کا قومی امکان ہے کہ طالبان افغانستان میں دوبارہ فتح یاب ہوں گے اور یہ طویل اور مہنگی جنگ لاحاصل ثابت ہوگی۔

ولی نصر کے ان الفاظ کے تقریباً ایک عشرے بعد اگست 2021ء میں دنیا نے دیکھا کہ طالبان نے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء سے بہت پہلے افغانستان فتح کر لیا۔ ولی نصر جو اس وقت جان ہوپ کنز یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، نے اپنی کتاب ”دی ڈسپنسبل نیشن: امریکن فارن پالیسی ان ریٹریٹ” میں کہا ہے کہ ان کی یہ تحریر پاکستان کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے امریکہ کو طالبان کے ساتھ افغانستان سے انخلاء پر مذاکرات کے مشورے کی بنیاد پر مبنی ہے۔

کتاب میں کہا گیا ہے کہ جنرل کیانی نے 2010ء میں واشنگٹن کے دورے کے دوران امریکی حکام کو بتایا کہ 2014ء تک افغان فورسز کو 4 لاکھ تک بڑھانے کی بجائے افغانستان سے انخلاء کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات ان کیلئے بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یقین تھا کہ افغان فوج بالآخر بکھر جائے گی، میں جنرل کیانی کے ردعمل کو نہیں بھول سکتا جب ہم نے بھرپور جذبے کے ساتھ 2014ء تک افغان فورسز کی تعداد کو 4 لاکھ تک بڑھانے کا منصوبہ بیان کیا۔

اس پر جنرل کیانی کا فوری اور دوٹوک جواب تھا کہ ایسا نہ کریں، آپ ناکام ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پھر آپ افغانستان چھوڑ جائیں گے اور نیم تربیت یافتہ فوج ملیشیاز میں تقسیم ہو جائے گی جو پاکستان کیلئے مسئلہ بنے گی۔ ان کا کہنا تھا میں نہیں سمجھتا کہ کانگریس 4 لاکھ کی فورس کو سالانہ 9 ارب ڈالر فراہم کرے گی، انہیں یقین تھا کہ افغان فوج بالآخر بکھر جائے گی اور اس کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے جرائم اور دہشت گردی کا سہارا لیں گے۔

جنرل کیانی کا مشورہ یہ تھا کہ اگر آپ افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں تو بس چھوڑ دیں۔ ہمیں یقین نہیں کہ آپ مزید ٹھہریں گے لیکن جاتے ہوئے مزید نقصان نہ کریں۔ ولی نصر نے کہا کہ پورے خطے میں یہی جذبات دکھائی دے رہے تھے، افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کی ہماری دلیل کی کوئی حمایت نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی افغانستان چھوڑنے کی دلیل پر کوئی آمادہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر کوئی بے سمت امریکہ کا عادی ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اکتوبر 2010ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وائٹ ہائوس کے دورے کے دوران صدر بارک اوباما کو 13 صفحات پر مشتمل ایک وائٹ پیپر دیا جس میں انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تصفیہ طلب سٹریٹجک ایشوز کے بارے میں اپنے خیالات بیان کئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا خلاصہ اس طرح کیا جا سکتا ہے : آپ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے اور نہ ہی آپ افغانستان کو تبدیل کر سکیں گے، اس جگہ نے آپ سے پہلے بھی کئی سلطنتوں کو نگل لیا تھا اور یہ آپ کے سامنے بھی نہیں جھکے گی، اپنے منصوبوں کو روکیں اور آئیں عملیت پسندی کا مظاہرہ کریں، بیٹھیں اور اس پر بات کریں کہ آپ کس طرح یہاں سے نکلیں گے اور پیچھے کیسی ریاست رہ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ جنرل کیانی نے مختلف ملاقاتوں میں اپنے انہی شکوک کا اظہار کیا، ہم انہیں قائل کرتے رہے کہ ہم خطے کے ساتھ مخلص ہیں اور افغانستان کے مسائل کا حل رکھتے ہیں: امریکہ پہلے طالبان کو شکست دے گا اور پھر سیکورٹی فورس تشکیل دے کر اسے یکجا کر کے یہاں سے نکلے گا، دیگر کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ افغان فوج کا تصور احمقانہ ہے، بہتر ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ انخلاء پر مذاکرات کرے۔